بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ کی طرف سے قرض کی فیس کہہ کر واپسی میں زیادہ رقم وصول کرنے کا حکم


سوال

میں نے ایزی پیسے سے ادھار لیا تھا 4400 ،اور ادا کیا ہے واپس بروقت 4872 ،یہ قرض کی فیس ہے ،کیا یہ  سودکے زمرے میں آتا ہے؟ اگر سود نہیں ہے تو بھی بتائیں اور اگر ہے تو اسکی زکوات سود کی کیسے دوں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں اصل قرض کی رقم سے زائد   رقم  جوقرض فیس کےنام سے  لی گئی وہ قرض پرنفع وصول کرنے  کی وجہ سے سود میں شامل ہے،اوریہ زائدرقم وصول کرناناجائزاورحرام ہے،نیزسودی رقم پرزکات   نہیں  ہوتی بلکہ اسے اصل مالک کوواپس کرناضروری ہے۔

حضور اکرم صلیٰ  اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(السنن الكبرى للبیھقي،باب كل قرض جر منفعة فهو ربا»(5/ 573) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية)

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام   (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)

فقظ واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں