بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے کی صورت میں ملنے والے اضافی بونس کا حکم


سوال

ایزی پیسہ ایپ میں Savings کے نام سے ایک آپشن ہے، جس میں پیسہ  جمع کرکے رکھنے کی وجہ سے کمپنی کی طرف سے کچھ  اضافی پیسہ ملتے ہیں، اس میں کمپنی اپنا ٹیکس بھی کاٹتی ہے۔

مثلا: اگر کوئی شخص اس میں 5000  روپے جمع کرواکے رکھتا ہے، تو کمپنی کی طرف سے 5 روپے   ملتے ہیں، پھر اس میں کمپنی  2 روپیہ ٹیکس کاٹتی ہے ،بقیہ  3 روپے خود بخود کلائنٹ  ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں، تو کیا شرعاً ایسے پیسہ رکھنا اور یہ منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی پیسہ ایپ کے  اکاؤنٹ   جس آپشن کے تحت بھی رقم جمع کی جاتی ہے، اس کی حیثیت  (انتہاءً) قرض کی ہوتی ہے، اور قرض سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا سود اور حرام ہے،لہذا صورت مسئولہ میں  ایزی پیسہ ایپ میں Savings نام کے آپشن   کے تحت  رقم جمع کروانے کی صورت میں کمپنی  کی طرف سے جو کچھ منافع ملے گا ، اس کا  لینا اور استعمال کرنا سود ہونے کے سبب ناجائز اور حرام ہے۔

 قرآن کریم میں ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ}  [البقرة: 278، 279]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ (بیان القرآن )

{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}[البقرة: 276]

 ترجمہ:اللہ سود کو مٹاتے ہیں،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔ (از بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل: رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان"

(مشکاۃ المصابیح، باب الربوا،‌‌الفصل الثالث، 809/2،  ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: "حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:  سود اگرچہ بڑھتا جائے لیکن اس کا انجام ہمیشہ قلت (کمی) کی طرف ہوتا ہے۔"

بدائع الصنائع میں ہے: 

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحًا، أو أقرضه و شرط شرطًا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعًا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطةً في القرض."

(کتاب القرض،فصل فی شرائط رکن القرض،7 / 395، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني".

(باب المرابحة والتولیة، مطلب کل قرضا جر نفعا، 166/5، ط:سعید)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"ان نظام البنوك الرائجة اليوم، الذي يسير على اساس الربا، له من المفاسد مالايعد ولايحصي .... ان الربا حرام مطلقا."

(كتاب المساقات، الحكمة في تحريم ربالفضل،575/1، ط:مكتبة معارف القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں