ہماری والدہ کی ایک دوکان کے سامنے شراب کی دوکان ہے، جس کا مالک ہم سے دوکان خریدنا چاہتا ہے، کیا اسے دوکان فروخت کرنا جائز ہے ؟جب کہ ہمیں معلوم بھی نہ ہو کہ وہ ہم سے دوکان خریدنے کے بعد اس میں کون سا کاروباروغیرہ کرے گا؟ مزید یہ کہ فروخت سے حاصل رقم سے قربانی اور زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ مذکورہ شخص دکان خریدنے کے بعد اس میں کون سا کاروبار کرے گا تو اس کو دکان بیچنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها نهر
(قوله: نهر) عبارته: وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه العازف."
(کتاب الجهاد , باب البغاۃ جلد 4 ص: 268 ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن