میری ایزی پیسہ اور جیز کیش کی دکان ہے ، اس میں پہلے ہر پچاس ہزار روپے پر تقریبا سو روپے کمیشن دیتی تھی، جو اب کم ہوتے ہوتے اڑتیس روپے ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے میں اور پاکستا ن میں اس کام کے ہر دکان دار نے ہر ہزار روپے پر پانچ روپے یا دس روپے لینا شروع کردیے ہیں ، آیا ہمار ااس طرح ہر ہزار روپے پر پانچ یا دس روپے لینا شرعا درست ہے یا نہیں ؟
یہ پانچ یا دس روپے کسٹمر سے لیتے ہیں مثال کے طور پر کسٹمر 1000 روپے بھیجنا چاہے تو ہم 1005 روپے لیتے ہیں یہ کمپنی کی طرف سے ہدایت نہیں ہم از خود کرتے ہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں رقوم کی منتقلی پر کمپنی کی جانب سےجب کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی اور کمپنی اپنے نمائندہ کو مقررہ شرح کے مطابق کمیشن بھی دیتی ہے اور ان کو کسٹمر سے زائد رقم وصول نہ کرنے کا پابند بھی کرتی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں اپنے نمائندہ کا لائنسس تک منسوخ کردیتی ہے تو اس صورت میں کمپنی کے نمائندوں کے لیے کسٹمر سے زائد رقم وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
رد المحتار میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: کے أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام۔"
(رد المحتار علی الدر المختار، 63/6، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100810
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن