بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ کرنے پر اضافی رقم لینے کا شرعی حکم


سوال

میں ایزی پیسہ کا کاروبار کرتا ہوں،طریقہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کو بھی ایزی پیسہ بھیجتے ہیں، تو ہم گاہک سے ایک ہزار روپے بھیجنے پر 10 روپے اضافی چارجز لیتے ہیں ،اور کبھی کوئی اپنے اکاؤنٹ سے ہمارے اکاؤنٹ میں رقم بھیج دیتا ہے، اور ہم سے نقد وصول کرتا ہے ، اس پر بھی ہم کچھ کٹوتی کر تے ہیں، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ  کیا ہمارے لیےاس طرح کی اضافی رقم لینا جائز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ ایزی پیسہ رٹیلر اکاؤنٹ میں رٹیلر(دکان دار) کمپنی کی طرف سے نمائندہ  اور ملازم ہوتا ہے، کمپنی  کسی  کورقم منتقل کرنے اور نکالنے کی صورت میں  رٹیلر کو اپنی طرف سےمقررہ کمیشن دیتی ہےاورکسٹمر سے اضافی چارجز لینے سے منع کرتی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں رٹیلر کے لیےکمپنی کی مقررہ کٹوتی کے علاوہ  کسٹمر سے اضافی رقم ( مثلاً ہزار روپے پر اضافی دس روپے ) لینا جائز نہیں،اسی طرح اگر  کوئی رٹیلر  کسٹمر کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ(رٹیلر اکاؤنٹ کے علاوہ)میں منتقل کرکے اپنےپاس موجود رقم سے ادائیگی کرے اور اس میں کمپنی کی طرف سے کوئی کٹوتی نہ ہوتی ہو  تو کسٹمر  سے  اضافی رقم لینا جائز نہیں کیوں کہ اس صورت میں کوئی ایسی خدمت نہیں پائی جاتی جس کے عوض رٹیلر اجرت لے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(كتاب النكاح،باب المہر، ج:3، 156، ط:سعید)

وفیه ايضاً:

"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: ‌من ‌دلني ‌على ‌كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(کتاب الإجارۃ، باب فسخ الإجارۃ، مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا، ج:6، ص:95، ط:سعید)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما معناها شرعا: فهو إقامة الإنسان غيره مقام نفسه في تصرف معلوم حتى إن لم يكن معلوما يثبت به أدنى تصرفات الوكيل وهو الحفظ."

(كتاب الوكالة: ج:3 ص:560، ط: دار الفكر)

"(وأما حكمها) فمنه قيام الوكيل مقام الموكل فيما وكله به." 

(كتاب الوكالة، ج:3، ص:566، ط: دار الفکر بیورت)

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له."

(كتاب البيوع، ج: 4، ص: 560، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں