بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ میں رقم نکالنے کی صورت میں کٹوتی کا حکم


سوال

 میرا ایزی پیسہ ( EASYPAISA ) اکاؤنٹ ہے، کبھی کبھار دوست احباب اس پر رقم بھیجتے ہیں، اب اگر یہی رقم میں دکاندار کے ذریعہ نکلوانا چاہوں تو 1000 روپے پر تقریبا 20 روپے تک کٹوتی ہوتی ہے، اور اگر یہی رقم میں میزان اکاؤنٹ ( بینک اکاؤنٹ ) میں منتقل کردوں اور بینک سے نکلوانا چاہوں تو کوئی کٹوتی نہیں ہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ وہ رقم میں اپنے بینک اکاونٹ میں منتقل کرکے اپنے دوست کو جیب سے یا بینک سے وہ رقم نکلواکر دوں اور اس سے وہ کٹوتی کرلوں جو دوکاندار کرتا ہے یا اس کو پوری رقم دینا لازمی ہے، اسی طرح بعض دوکاندار اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے پر اضافی چارجز مثلا 1000 پر 10 روپے لیتے ہیں جس کی اجازت کمپنی کی طرف سے نہیں ہوتی، تو کیا شرعا اس طرح جائز ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ایزی پیسہ میں کمپنی کی طرف سے دکان دار کو کسٹمر سے مزید چارجز لینے پر پابندی ہوتی ہے اور باقاعدہ کسٹمر کے پاس مزید چارجز نہ دینے کا میسیج بھی آتا ہے ،لہذا اس صورت میں کمپنی کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے  کسٹمر سے اضافی چارجز لینا چاہے وہ رقم نکالنے کی صورت میں لیں یا اکاونٹ میں رقم جمع کروانے کی صورت میں لیں شرعاً جائز نہیں ،اسی طرح سائل کے لیے بھی اس طرح کرنا جائز نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الاجارۃ،ج:۶،ص:۶۳،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں