بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ وغیرہ کے ذریعے رقم کی منتقلی پر کی جانے والی کٹوتی کا حکم


سوال

 ایزی پیسہ کے ذریعے رقم کے لین دین پر جو کٹوتی ہوتی ہے وہ کس حکم میں ہے؟ اس بارے میں راہنمائی فرمادیں ۔ کیا ایزی پیسہ اور جاز کیش کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی پیسہ،جاز کیش اور دیگر موبائل کمپنیوں کی حیثیت لوگوں  کے لیے اجیر مشترک کی  ہے،جو لوگوں کو ان کی  رقوم  کی بآسانی منتقلی کے لیے اپنی خدمات فراہم کرتی ہیںاور  کام مکمل کرنے کے بعد بصورتِ اجرت  اس پر   مخصوص مقدار میں طے شدہ رقم کی کٹوتی  کرتی ہیں ، یوں کمپنی اور  لوگوں کے درمیان  یہ معاملہ بطورِاجارہ طے ہو جاتا ہے، لہٰذا اس طرح کا کاروبار  کرنااور  اسےاستعمال کر کے فائدہ اٹھانا  شرعاًجائزہے،اس میں کوئی قباحت نہیں ۔لیکن شرط یہ ہے کہ کمپنی   گاہک کی مکمل رقم پہنچادینے کے بعداپنی  اجرت  بھیجی جانے والیرقم  سے وصول نہ کرے ، بلکہ اجرت  الگ  سے طے کرکے وصول کرے،مثلا: ہزار روپے کی ترسیل کے بعد اجرت کے  بیس روپے انہی بھیجے جانے والے ہزار روپے میں سے نہ کاٹے،بلکہ بیس روپے ہزار روپے سے الگ وصول کرے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

 "ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وَصْلاً (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد... وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف."

(‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية‌، الفصل الأول: عقد البيع،‌ المبحث السادس: أنواع البيوع، الصرف والتحويل القائم على القرض،3673/5،ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص)۔۔۔ (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."

(کتاب الأجارۃ، باب ضمان الأجیر،64/6،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا استأجر رجلا ليطحن له قفيزا من حنطة بربع من دقيقها أو ليعصر له قفيزا من سمسم بجزء معلوم من دهنه أنه لا يجوز؛ لأن الأجير ينتفع بعمله من الطحن والعصر فيكون عاملا لنفسه وقد روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قفيز ‌الطحان» ولو دفع إلى حائك غزلا لينسجه بالنصف فالإجارة فاسدة؛ لأن الحائك ينتفع بعمله وهو الحياكة وكذا هو في معنى قفيز ‌الطحان فكان الاستئجار عليه منهيا وإذا حاكه فللحائك أجر مثل عمله لاستيفائه المنفعة بأجرة فاسدة."

(‌‌كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، 192/4،ط: دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں