بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ سے متعلق چند سوال


سوال

میں ایزی پیسہ اور ایزی لوڈ کا کاروبار کرتا ہوں اس کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں :

1۔ہم کسٹمر کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے اپنے پرسنل اکاؤنٹ پر پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں اور کسٹمر سے ہزار روپے کے حساب سے20 روپے کمیشن حاصل کرتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟ 

2: اسی طرح اگر کوئی کسٹمر اپنے اکاونٹ میں پیسے ڈالنا چاہے ،یا کسی دوسرے کو پیسے بھیجنا چاہے، تو ہم اپنے پرسنل ایزی پیسہ اکاونٹ یا بینک اکاؤنٹ سے اسے پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں اور کسٹمر سے ہزار روپے کے حساب سے دس روپے یا پانچ روپے چارج کرتے ہیں یاد رہےاس پورے پراسس میں کمپنی کا کوئی عمل دخل نہیں یہ ہم اپنے ذاتی اکاونٹ سے کرتے ہیں کیا یہ کمیشن لینا جائز ہے؟

 3۔ ایزی لوڈ کرنے پر کمپنی ہمیں ڈھائی فیصد کمیشن دیتی ہے جو کہ بہت کم ہے اس کے لیے ہم نے یہ طریقہ اپنایا ہے، جو کوئی ایزی لوڈ کرتاہے وہ تو ہم کمپنی کی ایزی لوڈ ہی کی سم سے کرتے ہیں، اور کوئی اضافی چارجز نہیں لیتے لیکن اگر کوئی ڈاریکٹ پیکج لگانا چاہتا ہے تو وہ ہم کمپنی کی سم کی بجائے my telenor ایپ سے لگاتے ہیں، اور کسٹمر سے فی پیکج کے دس روپے اضافی چارج کرتے ہیں مثلا 90 روپے کا پیکج ہے تو ہم کسٹمر سے 100 روپے لیتے ہیں، یاد رہے کہ my telenor ایپ سے ہمیں کوئی کمیشن نہیں ملتا۔

جواب

1۔کسٹمر کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کرکے 1000 روپے میں 20 روپے کے حساب سے وصول کرنا ناجائز ہے، کیوں کہ کمیشن کسی عمل کی اجرت ہوتی ہے یہاں کوئی عمل نہیں پایا جارہا۔

2۔واضح رہے کہ "ریٹیلر سم"  سے  رقم کے ٹرانسفر یا کیش کرکے دینے کی صورت  میں کمپنی کی طرف سے متعین کمیشن لینا جائز ہے، اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں مثلا اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر کے گاہک کو رقم کیش کرکے دینا اور پھر  کمیشن لینا ناجائز ہے، البتہ جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ  سائل  گاہک کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے رقم کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرے ،پھر خود یا اپنے نمائندے کے ذریعہ بینک سے وہ رقم وصول کر کے، گاہک کو ادا کرے تو اس صورت میں اس خدمت کے عوض دکان دار کے لیے اجرت متعین کر کے کمیشن لینا جائز ہوگا۔

  3،۔ my telenor ایپ سے پیکج لگا کر دینے کی صورت میں اضافی دس روپے لینا جائز ہے، کیوں کہ یہ عمل کا معاوضہ ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال".

(کتاب البیوع، الباب التاسع فیما یجوز بیعه ومالایجوز، الفصل السادس فی تفسیر الربا، 117/3، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(كتاب النكاح،باب المہر،156/3،سعید)

مجموعہ قواعد الفقہ میں ہے:

"استحقاق الأجرة بعمل لا بمجرد قول."

(رقم القاعدة: 25، ص:57، ط:مير محمد كتب خانة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: ‌من ‌دلني ‌على ‌كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(كتاب الإجارة،‌‌باب فسخ الإجارة،مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا،95/6، ط: سعيد)

مجمع  الضمانات میں ہے:

"الأجير على نوعين: أجير مشترك ... فالأجير المشترك هو الذي ‌يستحق ‌الأجرة ‌بالعمل لا بتسليم النفس كالقصار والصباغ"

(باب مسائل الإجارة،القسم الثاني في الأجير ،‌‌المقدمة في الكلام على الأجير المشترك والأجير الخاص،ص:27، ط:دار الكتاب الإسلامي)

مجمع الأنهر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے:

"(ولا يستحق) الأجير المشترك (الأجر حتى يعمل كالصباغ، والقصار) ونحوهما؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بين المعوضين فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر وهو العمل لا يسلم للأجير العوض وهو الأجر."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،فصل أحكام الأجير وأنواعه، 2/ 391،ط:المطبعة العامرة - تركيا/1328ه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں