بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ کے ذریعہ رقوم کی ترسیل پر زائد رقم وصول کرنا


سوال

 easypaisa میں جو کٹوتی دوکاندار اپنی طرف سے کرتا ہے ، اس کا کیا حکم  ہے؟

مثلا میں نے 1000 روپے دوکاندار کو سینڈ کیے،  وہ  1000 پورے کے پورے اس کے اکاؤنٹ میں آگئے۔(مطلب اس میں کٹوتی نہیں ہوتی شاید آپ کو معلوم ہو) تو اس نے مجھے 980 روپے دیے ۔ اور بعض دوکاندار  بھیجنے  کی صورت میں اضافی پیسے لیتے ہیں،  مثلًا  میں نے دوکاندار کو 18500 دیے کہ یہ فلاں نمبر کو سینڈ کردیں  تو  وہ  18300 روپے سینڈ کردیتے ہیں۔

ملحوظ  رہے کہ  (اس نے اگر یہ پورے 18500 سینڈ کیے تو اس پر نہ  کوئی ٹیکس لگتا ہے،  اور نہ  اسے کوئی نقصان ہوتا ہے )۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں رقوم کی منتقلی پر کمپنی کی جانب سے مقررہ شرح کے مطابق کمیشن  دیا جاتا ہے، اور  ترسیلات  زر پر  چونکہ  کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی،  نیز کمپنی  اپنے نمائندہ گان کو ان کو کسٹمر سے زائد رقم  وصول نہ  کرنے کا پابند بھی کرتی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں اپنے نمائندہ  کا لائنسس تک منسوخ کردیتی ہے تو اس صورت میں کمپنی کے نمائندوں کے لیے کسٹمر سے زائد رقم وصول کرنا شرعاً جائز  نہیں ہے، کیوں کہ  ترسیلات زر کے سلسلہ میں ایزی پیسہ اکاؤنٹ ہولڈر کمپنی کا نمائندہ ہوتا ہے، جس پر کمپنی کی جانب سے کچھ فیصد بطور اجرت دیا جاتا ہے۔

رد المحتار علی  الدر  المختار  میں ہے:

"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص) ... (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."

( کتاب الأجارۃ،  باب ضمان الأجیر، ٦ / ٦٤،ط: دار الفكر)

فقہ البیوع میں ہے:

"أن دائرة البرید نتقاضي عمولة من المرسل علی إجراء هذه العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما يدفعه البرید إلی المرسل إليه فكان في معني الربا ولهذا السبب أفتي بعض الفقهاء في الماضي القریب بعدم جواز إرسال النقود بهذا الطریق ولکن أفتي کثیر من العلماء المعاصرین بجوازها علی أساس أن العمولة التی یتقاضاها البرید عمولة مقابل الأعمال الإدارية من دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أو البرقیة وغيرها إلي مكتب البريد في يد المرسل إليه وعلي هذا الأساس جوز الإمام أشرف علي التهانوی رحمه اللہ إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة".

(٢ / ٧٥١،  ط: بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں