بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1446ھ 08 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اور جیز کیش کے ذریعے رقوم کی منتقلی اور کیش نکال کر دینے والے دکان داروں کا لوگوں سے اجرت وصول کرنے کا حکم


سوال

میری ایزی لوڈ کی دکان ہے جہاں جیز کیش اور ایزی پیسہ کا کام بھی ہوتا ہے، ہم لوگوں کو رقم نکال کر بھی دیتے ہیں اور لوگوں کی رقم بھیجتے بھی ہیں، اس کے لیے ہمیں کمپنی سے ریٹیلر اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے، پہلے کمپنی ایک لاکھ روپے پر 800 روپے کمیشن دیتی تھی، لیکن اب وہ کمیشن بہت کم ہوگیا ہے، اب ہزار روپے پر صرف ڈھائی روپے کمیشن ملتا ہے، اس لیے اب ہم خود ہزار روپے بھیجنے کے عوض لوگوں سے 10 روپے  اور ہزار روپے نکال کر دینے کے عوض 20 روپے بطور اجرت لیتے ہیں، کیا ہمارا لوگوں سے یہ اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

  واضح رہے کہ کمپنی کی جانب سے رقوم کی منتقلی پر  چوں کہ دکان دار اور ایجنٹ کو مقررہ شرح کے مطابق  کمیشن    دیا جا  تاہے،چاہے وہ کمیشن کم ہو یا زیادہ؛اس لیے ایسی صورت میں کمپنی کے نمائندے یعنی دکان دار کے لیے گاہک سے اضافی چارجز مثلاً ایک ہزار روپے پر دس یا بیس روپے الگ سےیعنی زائد وصول کرنا جائز نہیں  ہے،کیوں کہ جب کمپنی نے دکان دار کو ریٹیلر  اکاؤنٹ (Retailer Account) کھول کر دیا ہے تو اس ریٹیلر اکاؤنٹ (Retailer Account) کے ذریعے لوگوں کے پیسے بھیجنے یا نکال کر دیتے ہوئے اس دکان دار کی حیثیت کمپنی کے اجیر (ملازم) اور کمیشن ایجنٹ کی ہے ، اسی لیے کمپنی دکان دار کو رقوم کی منتقلی پر اجرت بصورت کمیشن دیتی ہے، لہذا ایسی صورت میں کمپنی کے ملازم اور نمائندہ ہونے کی وجہ سے دکان دار کے لیے کمپنی کے علاوہ کسٹمر سے بھی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی دکان دار لوگوں کی رقوم بھیجنے یا نکال کر دینے کے لیے کمپنی کا ریٹیلر اکاؤنٹ (Retailer Account) استعمال کرنے کے بجائے اپنا پرسنل اکاؤنٹ (Personal Account) استعمال کرے جس پر کمپنی کی طرف سے کوئی کمیشن نہیں ملتا ہے تو ایسی صورت میں اگر دکان دار لوگوں سے یہ معاہدہ کرلے کہ میں آپ کی رقم اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے کے بعد بینک جاکر آپ کی رقم نکالنے کے عوض ہر ہزار روپے نکال کر دینے پر بیس روپے اجرت لوں گا اور وہ لوگ اس پر رضامندی کا اظہار کرلیں تو دکان دار کے لیے اس کام (یعنی بینک جاکر کیش رقم نکال کر لانے) کے عوض اجرت لینا جائز ہوگا، خواہ دکان دار رقم اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے کے بعد اپنی طرف سے اسی وقت لوگوں کو ادائیگی کردیں اور ٹرانسفر شدہ رقم بعد میں نکالیں یا پہلے بینک جاکر ٹرانسفر شدہ رقم نکال کر پھر لوگوں کو ادا کریں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام ... (ولا يستحق المشترك الأجر ‌حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، 6 /63 - 64، ط: سعيد)

مجمع  الضمانات میں ہے:

"الأجير على نوعين: أجير مشترك ... فالأجير المشترك هو الذي ‌يستحق ‌الأجرة ‌بالعمل لا بتسليم النفس كالقصار والصباغ."

(باب مسائل الإجارة، القسم الثاني في الأجير،‌‌ المقدمة في الكلام على الأجير المشترك والأجير الخاص، ص:27،  ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وأما شرائط الصحة ‌فمنها ‌رضا ‌المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا ... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، 4/ 411، ط:دار الفکر)

الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:

 "ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وَصْلاً (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد... وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف."

(‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية‌، الفصل الأول: عقد البيع،‌ المبحث السادس: أنواع البيوع، الصرف والتحويل القائم على القرض،ج:5، ص:3673، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص)... (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."

(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، ج:6، ص:64، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونوع ‌يرد ‌على ‌العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك، كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة،‌‌ الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:409، ط:رشیدیة)

وفیه ایضاً:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير،‌‌ فصل في التعزير، ج:2، ص:167، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں