ایزی پیسہ سے گیس اور بجلی کا بل ادا کرنا کیسا ہے جائز ہے یا نہیں؟
ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیشگی جمع کردہ رقم کی حیثیت قرض کی ہے، یعنی اکاؤنٹ ہولڈر مذکورہ اکاؤنٹ میں جو رقم جمع کراتا ہے، وہ کمپنی پر قرض ہوتی ہے، جس پر کمپنی متعین رقم جمع کرانے کی صورت میں مشروط نفع کیش بیک، فری منٹس، ایم بیز وغیرہ کی صورت میں دیتی ہے، جو کہ عین سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانااور اس سے کسی قسم کے مالی فوائد حاصل کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی "ایزی پیسہ اکاؤنٹ" کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا استفادہ (جیسے بل وغیرہ جمع کرانا، یا ایزی لوڈ کرنا) کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
ایزی پیسہ اکاونٹ کی شرعی حیثیت
فتاوی شامی میں ہے:
"[مَطْلَبٌ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ]
(قَوْلُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ، وَعَنْ الْخُلَاصَةِ وَفِي الذَّخِيرَةِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ النَّفْعُ مَشْرُوطًا فِي الْقَرْضِ، فَعَلَى قَوْلِ الْكَرْخِيِّ لَا بَأْسَ بِهِ وَيَأْتِي تَمَامُهُ."
(كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، ٥ / ١٦٦، ط: دار الفكر)
المغني لابن قدامة میں ہے:
"فصل: وكل قرض شرط فيه أن يزيده، فهو حرام، بغير خلاف. قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية، فأسلف على ذلك، أن أخذ الزيادة على ذلك ربا. و قد روي عن أبي بن كعب، و ابن عباس، و ابن مسعود، أنهم نهوا عن قرض جر منفعة. و لأنه عقد إرفاق و قربة، فإذا شرط فيه الزيادة أخرجه عن موضوعه."
( كتاب البيوع، باب القرض، فصل في قرض شرط فيه أن يزيده، ٤ / ٤٤٠، ط: مكتبة القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303200001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن