بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ کے حکم میں فرق


سوال

آپ بینک میں کرنٹ اکاونٹ کھلوانے کی اجازت دے رہے ہیں اور ایزی پیسہ میں ان کی آفر کو یوز (استعمال) نہ کرنے اور صرف اکاؤنٹ سے جائز فائدہ اٹھانے سے بھی منع کر رہے ہیں، کیا یہ متضاد فتوی نہیں؟ اگر ایزی پیسہ سے سود نہ لیا جائے تو اسے بھی کرنٹ اکاؤنٹ ہی کی طرح کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ   میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع (مفت منٹس، ایم بی اور میسج وغیرہ کی سہولت) دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو شریعتِ مطہرہ میں سود قرار دیا گیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا".

( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة» (7/ 326) برقم (1440)،ط. ار العاصمة ،دار الغيث – السعودية)

 نیز   چوں کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ کا کھلوانا ایک ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہوتا ہے ، اس لیے یہ اکاؤنٹ  کھلوانا یا کھولنا  مطلقاً ناجائز ہے، چاہے اس میں سہولیات سے فائدہ اٹھایا جائے یا نہیں، جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر  نہ تو براہِ راست  سودی نظام میں معاون ہوتا ہے اور نہ ہی سودی رقم وصول کرتا ہے، نہ ہی بینک سے کوئی سودی معاہدہ کرتا ہے،اس لیے ضرورت کی وجہ سے بامرِ مجبوری اس کی اجازت دی جاتی ہے، گو بہتر یہ ہی ہے کہ اس سے بھی احتراز کیا جائے؛ کیوں کہ اس صورت میں بھی اکاؤنٹ ہولڈر کا پیسہ سودی نظام میں استعمال ہوتا ہے، لہذا احتیاط بہتر ہے۔

بہرحال دونوں اکاؤنٹس کی حیثیت میں فرق ہے؛ لہٰذا ان دونوں کے حکم میں بھی فرق ہے۔

حديث شريف ميں هے:

" عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آكل الربا، وموکله، وكاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء ".

(الصحيح لمسلم ، با ب لعن آكل الربا، ومؤكله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

شرح النووي على مسلم (11 / 26):

" آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه و قال: هم سواء) هذا تصريح بتحريم كتابة المبايعة بين المترابيين والشهادة عليهما وفيه تحريم الإعانة على الباطل والله أعلم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں