بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی لوڈ والے کا اضافی رقم لینے کا حکم


سوال

ایزی لوڈ والے کے لیے موبائل فون کے پیکیج لگا کر دینے پر اضافی رقم بطورسروس چارجز کی مد لینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی لوڈ   اور ریچارج کارڈ کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، اور وہ جو کارڈ فروخت کرتے ہیں، یا ایزی لوڈ کرتے ہیں، وہ کمپنی کے وکیل  کی حیثیت سے کرتے ہیں، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے  معاوضہ بصورتِ کمیشن دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی، یہاں تک کے اگر کوئی نمائندہ مقررہ نرخ سے زائد وصول کرتے پکڑا جائے تو کمپنی کی جانب سے نمائندگی کے حق سے معزول کرنے کا حق کمپنی محفوظ رکھتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں ایزی لوڈ والے کے لیے موبائل پیکج لگانے پراگر کمپنی کی طرف سے کوئی مقرر کمیشن ملتا ہے یا کپمنی کی طرف سے اضافی چارجز لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس دکان دار  کےلیے یہ اضافی چارجز لیناجائز نہیں ہے۔

مسئولہ صورت کی نظیر   ’’امداد الفتاوی‘‘  میں ہے:

"اسٹامپ کو اس کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کرنا

سوال (۱۷۴۶) : قدیم ۳ / ۱۱۳- لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے  لاتے  ہیں، ان کو  ایک روپے تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے  جاتے ہیں یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سوا پندرہ آنہ پر مِلتا ہے، اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں ، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟

الجواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے اس عملہ کے مصارف اہلِ معاملات سے بدیں صورت  لیے جاتے ہیں کہ ان ہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی؛ اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار ان ہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخِل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصِل کر لیتا ہے، اور اس تعجیلِ ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں ، اس  لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا۔  فقط۔ ۲۴ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۹؁ ھ (تتمہ اولیٰ ص ۱۵۹)

( امداد الفتاوی جدید، ۷ / باب: جائز و ناجائز یا مکروہ معاملات بیع، ۶ / ۵۱۴، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع۔"

(فصل فی بیان حکم التوکیل، ج:6، ص:27، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجملة الأمر أن كل ما قيد به الموكل إن مفيدا من كل وجه يلزم رعايته أكده بالنفي أو لا كبعه بخيار فباعه بدونه، نظيره الوديعة إن مفيدا ك " احفظ في هذه الدار " تتعين، وإن لم يقل لا تحفظ إلا في هذه الدار لتفاوت الحرز وإن لا يفد أصلا لا يجب مراعاته كبعه بالنسيئة فباعه بنقد يجوز، وإن مفيدا من وجه يجب مراعاته إن أكده بالنفي وإن لم يؤكده به لا يجب."

( كتاب الوكالة، ج:5، ص:523، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں