بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی لوڈ کرنے پر کمپنی ریٹ سے زائد وصول کرنے کا حکم


سوال

 ایک بندہ نے ایزی لوڈکی دوکان کھولی ہے ، اس کاروزگاروکاروباریہی ہے،  اب وہ جب بھی کوئی پیکج کرتاہےیالوڈکرتاہےتوکمپنی کی جانب سےاس کوہر100روپےپر2روپے50پیسےدیےجاتےہیں،  جواس کے تمام تراخراجات یعنی د کان کاکرایہ،  بجلی کابل وغیرہ  کےلیےناکافی ہوتے ہیں،  اب   اس کی متبادل صورت وہ یہ اختیارکرتاہے کہ ہرپیکج پر10یا15روپےاضافی لیتاہے،  یعنی کہ جوپیکج کمپنی کی جانب سے140کاہےوہ 150میں لگاتاہے،  توکیااس طرح کرنااس کےلیےجائزہےیانہیں؟  اگرجوا ز کی کوئی صورت کسی شرط کےساتھ مشروط ہوکربھی ممکن ہوتوضرور رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایزی لوڈ   کا کام کرنے والے شخص کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، اور  وہ کمپنی کے وکیل  کی حیثیت سے ایزی لوڈ کرتا ہے ، جس پر اسے  کمپنی کی جانب سے  معاوضہ بصورتِ کمیشن دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اگر  یہ معلوم ہو جائے کہ  کوئی نمائندہ مقررہ نرخ سے زائد وصول کرتا ہے  تو کمپنی ا سے اپنی نمائندگی سے معزول کرنے کا حق رکھتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے طے شدہ کمیشن سے زائد کمیشن وصول کرنا کسی  صورت  جائز  نہیں ہے ، اور اس کی کوئی ممکنہ جائز صورت نہیں ہے، اگر مذکورہ شخص  کو اس کام سے بچت نہیں ہورہی ہے، اور اس کے  اخراجات ادا نہیں ہو رہے ہیں  تو اسے چاہیے کہ  کوئی اور حلال روزگار شروع کرے۔

"رد المحتار" میں ہے:

"وجملة الأمر أن كل ما قيد به الموكل إن مفيدا من كل وجه يلزم رعايته ‌أكده ‌بالنفي أو لا كبعه بخيار فباعه بدونه، نظيره الوديعة إن مفيدا ك " احفظ في هذه الدار " تتعين، وإن لم يقل لا تحفظ إلا في هذه الدار لتفاوت الحرز وإن لا يفد أصلا لا يجب مراعاته كبعه بالنسيئة فباعه بنقد يجوز، وإن مفيدا من وجه يجب مراعاته إن ‌أكده ‌بالنفي وإن لم يؤكده به لا يجب، مثاله لا تبعه إلا في سوق كذا يجب رعايته."

(كتاب الوكالة، ج:5، ص:523، ط:سعيد) 

مسئولہ صورت کی نظیر   ’’امداد الفتاوی‘‘  میں ہے:

"اسٹامپ کو اس کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کرنا

سوال (۱۷۴۶) : قدیم ۳ / ۱۱۳- لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے  لاتے  ہیں، ان کو  ایک روپے تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے  جاتے ہیں یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سوا پندرہ آنہ پر مِلتا ہے، اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں ، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟

الجواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے اس عملہ کے مصارف اہلِ معاملات سے بدیں صورت  لیے جاتے ہیں کہ ان ہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی؛ اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار ان ہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخِل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصِل کر لیتا ہے، اور اس تعجیلِ ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں ، اس  لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا۔  فقط۔ ۲۴ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۹؁ ھ (تتمہ اولیٰ ص ۱۵۹)

( امداد الفتاوی، باب: جائز و ناجائز یا مکروہ معاملات بیع،ج:3، ص:113، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں