بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصال ثواب کا طریقہ اور ایصال کرنے والے کے اجر سے کچھ کم نہیں ہوگا


سوال

 میری والدہ محترمہ وفات پاگئی ہیں، اس کے لیے ایصالِ ثواب کے لیےکچھ بھیجنا چاہتا ہوں جیسے نفل، صدقہ یا تبلیغ وغیرہ میں جانا تو میں ایک دفعہ یہ نیت کروں  کہ آدھا ثواب میرا اور آدھا میری والدہ محترمہ کے لیے ، اس میں راہ نمائی درکار ہے، کیا میں ایسا کرسکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ ہر قسم کی بدنی ومالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچانا جائز اور صحیح ہے، بلکہ مسحتسن امر ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بدنی عبادت یا مالی عبادت کر کے اللہ سے دعا مانگے کہ اے اللہ! میری اس عبادت کا ثواب فلاں کو پہنچادے۔

نیز اگر عبادت کا مکمل ثواب بھی میت کو بخشے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے اس ثواب بخشنے والے کے اجر میں سے بھی کچھ کم نہیں ہوگا۔   

فتاوی شامی میں ہے:

"الأفضل لمن يتصدق نفلًا أن ينوي لجميع المؤمنين و المؤمنات؛ لأنها تصل إليهم و لاينقص من أجره شيء. اهـ هو مذهب أهل السنة و الجماعة.

سئل ابن حجر المكي عما لو قرأ لأهل المقبرة الفاتحة هل يقسم الثواب بينهم أو يصل لكل منهم مثل ثواب ذلك كاملًا. فأجاب بأنه أفتى جمع بالثاني، و هو اللائق بسعة الفضل."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:243، 244، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"تقسیم ہو کر ملنے کا قول باعتبار دلیل راجح ہے اور وسعت رحمت اس کی مقتضی ہے کہ پورے قرآن مجید کا ثواب ملے".

(کتاب الجنائز، ج:4، ص:135، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں