بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی مرد کی عیسائی بیوی مسلمان ہوجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

میرانام پطرس خان والد صابر مسیح ہے ،میں عیسائی برادری سے تعلق رکھتا ہوں ،میری زوجہ  میرے  نکاح میں ہے اور ہمارے 4 بچے بھی ہیں ،شادی کو لگ بھک 22 سال گذرچکے ہیں ،وہ عورت اگر کسی دوسرے عیسائی مرد کے ساتھ بھاگ کر سند اسلام حاصل کرکے نکاح کرتی ہے ،یعنی مرد اور عورت دونوں نے اسلا م قبول کرکے نکاح کیا ہو تو نکاح جائز ہے ؟اور اگر جائز ہے تو ان حالات میں اس کے شوہر اور بچوں کی اس کی زندگی میں کیا حیثیت ہے ؟ جبکہ پچھلے شوہر یعنی مجھ سے طلاق نہ ہوئی ہو۔

اس کے علاوہ جس شخص نے اب نکاح کیا ہے اس  کے نکاح میں پہلے سے عیسائی عورت ہے ،اس صورت میں جو نکاح میری زوجہ نے کیا وہ  جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی عورت مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر غیر مسلم ہو توعورت کے صرف اسلام لانے سے نکاح ختم نہیں ہوتا ،بلکہ عورت  پر  لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر پر اسلام پیش کرے ،یعنی وہ مسلمان ہوگئی ہے اور شوہر کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ،اگر شوہر اسلام قبول کرلیتا ہے تو دونوں کا نکاح برقراررہتا ہے  اور اگر شوہر اسلام قبول نہیں کرتا اور  انکار کردیتا ہے  تو پھر دونوں کا نکاح ختم ہوجاتاہے ،اگرچہ شوہر طلاق نہ دے  ،اس کے بعد عورت کو تین ماہواری عدت گذار کر دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوتی ہے  ۔

 صورت مسؤلہ میں  اگر سائل کی بیوی نےاسلام قبول کرنے کے بعد  سائل پر اسلام پیش نہیں کیا تھا   اور  دوسرے مرد سے  نکاح کیا ،تو وہ  نکاح شرعا منعقد ہی نہیں ہوا ،سائل کی بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود یا اس کے وکیل کے ذریعہ  سائل پر اسلام پیش کرے ،اگر سائل اسلام قبول کرلے تو نکاح برقرار رہے گا اور اگر انکار کردے تو نکاح   ختم ہوجائے گا ،جس کے بعد   عورت کے لیے عدت گزار کر دوسری جگہ  نکاح کرنا جائز ہوگا ۔

لیکن اگر سائل کی بیوی نے  سائل  کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی تھی اور سائل کو اسلام کی دعوت دی تھی اور  سائل نے انکار کردیا تھااور اس کے بعد سائل کی بیوی نے عدت گذار کر دوسرے مرد سے  نکاح کیا تو دوسرا نکاح درست ہے اور جو نابالغ بچے ہیں وہ مسلمان ماں  کے تابع ہوکر مسلمان شمار ہوں گے ،اور جو بالغ بچے ہیں وہ ماں کے تابع ہوکر مسلمان شمار نہیں ہوں گے ،بلکہ اسلام قبول کرنا یا نہ  کرنا ان کے اختیار میں ہے ۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(وإذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فبها (وإلا) بأن أبىأو سكت (فرق بينهما."

(باب نكاح الكافر ,رد المحتار3/ 188ط:سعيد)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية:  

"للفقهاء في أثر اختلاف الدّين في إسقاط حقّ الحضانة...ذهب الحنفيّة إلى التّفريق بين حضانة النّساء وحضانة الرّجال ، فلا يشترط عندهم اتّحاد الدّين بين المرأة الحاضنة وبين المحضون . كذا في بدائع الصّنائع نقلاً عن الأصل ...أمّا حضانة الرّجل فيمنع استحقاقها عند الحنفيّة اختلاف الدّين ، فلا حقّ للعصبة في حضانة الصّبيّ إلاّ أن يكون على دينه ، لأنّ هذا الحقّ لا يثبت إلاّ للعصبة ، واختلاف الدّين يمنع التّعصيب ، فلو كان للصّبيّ اليهوديّ أخوان أحدهما مسلم والآخر يهوديّ فحضانته لأخيه اليهوديّ لأنّه عصبته ....إذا اختلف دين الوالدين بأن كان أحدهما مسلماً والآخر كافراً فإنّ ولدهما الصّغير ، أو الكبير الّذي بلغ مجنوناً ، يكون مسلماً تبعاً لخيرهما ديناً . هذا مذهب الحنفيّة والشّافعيّة والحنابلة . واشترط الحنفيّة أن يكون الولد وخير أبويه متحدّي الدّار حقيقةً وحكماً كأن يكون خير الأبوين مع الولد في دار الإسلام أو دار الحرب ، أو حكماً فقط بأن كان الصّغير في دارنا والأب في دار الحرب ". 

(2/ 406ط:وزارة الأوقاف الشؤون الإسلامية)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144401101340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں