بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاق نامہ کی شرعی حیثیت


سوال

میں نے دو شادیاں کی تھیں ،پہلی بیوی سے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے، بچی کی تو میں شادی کرچکا ہوں، اور ایک لڑکے  کی بھی شادی ہوچکی ہے،اور صاحب اولاد ہے، جب کہ آخری لڑکا  28سال کا ہے، اور اس کی بھی شادی  ہونے والی ہے ،یہ لڑکے مجھ سے اپنا حصہ مانگتے  ہیں، جب کہ  اس وقت میر ی نہ کوئی جائداد ہے اور نہ کوئی نقدی   ہے، خود 56سال کی عمر میں کام کرکے دوسری بیوی بچوں کے لیے مشکل سے گھر چلارہا ہوں، جب کہ میں خود قرض دار  ہوں اور بھائی کے گھر میں کرایہ پر رہتا ہوں، آج تک ان بچوں نے نہ تو میری کوئی معاونت کی ہے، اور نہ میری دیکھ بال کرتے ہیں ،سوائے نافرمانی اور دھمکانے کیے،تو اس نافرمانی اور غیر مناسب معاملات  کی وجہ سے میں نے ان کوقانونی عاق نامہ جاری کردیا  ہے ۔

پوچھنا یہ ہے کہ

1۔کیا میرے اوپر ان کاکوئی حصہ لازم ہے؟ 

2۔شریعت کی روشنی میں اس عاق نامہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ زندگی میں اپنے مال کا مالک آدمی خود ہوتا ہے ،اولاد وغیرہ  کا  اس کے مال میں کوئی حق و حصہ  نہیں ہوتا ،جس کا مطالبہ کیا جائے ؛لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی اولاد کا سائل کے زندگی میں اس کے مال میں حصے کامطالبہ کرنادرست نہیں اور سائل پر کسی کو کچھ دینا لازم نہیں ۔

2۔واضح رہے کہ عاق  کرنا ،یعنی اپنی اولاد  میں سے کسی کو  اپنی جائیداد  سے  محروم کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعاً اس کی کوئی حیثیت ہے،  لہذااپنی اولا د میں سے کسی کو عاق کرنے سے وہ  ميراث سے محروم نہیں ہوگا،  بلکہ وہ بدستور اس  کے ورثاء  میں شامل  رہے گا اور والد کی موت کے بعد اس  کے ترکہ  میں اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا، البتہ اگر واقعۃً وہ والد  کا نافرمان ہو تو کبیرہ گناہ  کا  مرتکب  ہے، جس  پر  عنداللہ  اس کامواخذہ ہوگا، بشرط یہ کہ والد کی زندگی میں ہی معافی تلافی نہ کرلی گئی ہو۔

البحرالرائق میں ہے:

وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول هذا فصل اختلف المشايخ فيه قال مشايخ العراق الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث وقال مشايخ بلخ الإرث يثبت بعد موت المورث.

( كتاب الفرائض، ج:9، ص:364، دارالكتب العلمية)

تکملة رد المحتار  لمحمد علاء الدین   میں ہے: 

الإرث جبري لايسقط بالإسقاط ... الخ

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی ،ج:7،ص:505،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں