بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی بینک کو مکان کرایہ پر دینے والے کےلیے مکان کی خریداری پر بروکری کی ایک صورت اور اس کا حکم


سوال

ایک شخص نے سودی بینک كو مکان کرائے پر دیا ہواتھا، اب دوسرا شخص وہی مکان خرید رہاہے، اور اس نے اسٹیٹ ایجنسی کو کہا کہ یہ اچھا ہے کہ مکان بینک کو دیا ہوا ہے، اس وجہ سے میں خرید رہاہوں، تو آپ مجھے یہ مکان دلادیں، باقی بینک کے ساتھ جو بھی معاملہ اور کاغذی کاروائی ہوگی وہ میں خود کرلوں گا، جو کہ بعد کا مسئلہ ہے، اب ایک صاحب کا کہنا ہے کہ  اسٹیٹ ایجنسی والا ايك مالك سے دوسرے مالك كی طرف مكان كی منتقلی كا جو معاملہ کرےگاوہ اعانت علی المعصيت كی وجہ سے ناجائز و مکروہ ہوگا، جب كہ دوسرے صاحب كہہ رہے ہیں کہ یہ اعانت علی المعصيت نہیں، بلكہ وہ تو اپنا كام كررہاہے، مكان تو بينك كو بائع نے پہلے ہی سے ديا ہواہے، اوروہ فتاویٰ عثمانی کا حوالہ بھی دے رہے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اسٹیٹ ایجنسی کا یہ کام (کہ مذکورہ مکان دوسرے کو دلوائے) مکروہ ہے یا نہیں؟ اور یہ اعانت علی المعصیت کے زمرے میں آئے گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اسٹیٹ ایجنسی والے کی جانب سے  ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف مکان کی منتقلی کا معاملہ درست ہے، اور شرعًا یہ اعانت علی المعصیت کے زمرے میں نہیں آئے گا، کیوں کہ یہ معاملہ مکان کی خرید و فروخت میں بروکری کا ہے، بینک کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں، تاہم جو صاحب مذکورہ مکان سودی بینک کو کرایہ دینے کے ارادے سے خرید رہےہیں صرف ان ہی کا عمل اعانت علی المعصیت کے زمرے میں آئےگا، انہیں اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ جس طرح معصیت حرام و ناجائز ہے اسی طرح بنصِ قرآنی قصداً و ارادۃً معصیت پر مُعین و مددگار بننا بھی حرام و ناجائز ہے، اور جس طرح معصیت سے اجتناب و احتراز ضروری ہے اسی طرح اعانت علی المعصيت سے بھی اجتناب و احتراز لازمی ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(سورة المائدة: آية ٢)

ترجمہ: ’’اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور الله تعالیٰ سے ڈرا کرو، بلاشبہ الله تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں ۔‘‘  (از بیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام. وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط:ايج ايم سعید كراتشي)

البحر الرائق میں ہے:

"بيع العصير من خمار

قال: رحمه الله (‌وجاز ‌بيع ‌العصير ‌من ‌خمار) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره بخلاف بيع السلاح من أهل الفتنة؛ لأن المعصية تقوم بعينه فيكون إعانة لهم وتسببا وقد نهينا عن التعاون على العدوان والمعصية ولأن العصير يصلح للأشياء كلها جائزة شرعا فيكون الفساد إلى اختياره، وبيع المكعب المفضض للرجال إذا علم أنه يشتريه ليلبسه يكره؛ لأنه إعانة له على لبس الحرام ولو أن إسكافيا أمره إنسان أن يتخذ له خفا على زي المجوس أو الفسقة، أو خياطا أمره إنسان أن يخيط له قميصا على زي الفساق يكره له أن يفعل ذلك كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،فصل في البيع، ج:8، ص:230، ط: دار الكتاب الإسلامي القاھرۃ)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال رحمه الله: (وإجارة بيت ليتخذه بيت نار أو بيعة أو كنيسة أو يباع فيه خمر بالسواد) أي ‌جاز ‌إجارة ‌البيت ‌ليتخذه ‌معبدا ‌للكفار والمراد ببيت النار معبد المجوس، وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا لا ينبغي أن يكريه لشيء من ذلك؛ لأنه إعانة على المعصية، وقد قال الله تعالى:{وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان}[المائدة: 2]،وله أن الإجارة على منفعة البيت ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه، وإنما المعصية بفعل المستأجر، وهو مختار فيه لقطع نسبته عنه."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ج:6، ص:29، ط:دار الكتاب الإسلامي بیروت)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(ولا تكره إجارة بيت بالسواد) أي بالقرية (ليتخذ ‌بيت ‌نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع) معطوف على قوله ليتخذ أي ليباع (فيه الخمر) عند الإمام؛ لأن الإجارة واردة على منفعة البيت ولا معصية فيه وإنما معصيته بفعل المستأجر وهو فعل الفاعل المختار فقطع نسبته منه كبيع الجارية لمن لا يستبرئها أو يأتيها من دبرها أو بيع الغلام من اللوطي كما في التبيين وغيره وهذا صريح في جواز بيع الغلام من اللوطي والمنقول في كثير من المعتبرات أنه يكره (وعندهما يكره) أن يؤجر بيتا لشيء من ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الأئمة الثلاثة قالوا إن ما ذكره الإمام مختص بسواد الكوفة؛ لأن أغلب أهلها ذمي وأما في سوادنا فأعلام الإسلام ظاهرة فلا يمكنون من إجارة البيت ليتخذه معبدا ومفسقا في الأصح كما لا يمكنون في الأمصار لعدم الإذن من الحكام فيما تغلب فيه شعائر الإسلام وعن هذا قال (ويكره في المصر إجماعا وكذا في سواد غالبه أهل الإسلام) لما مر أن شعائر الإسلام ظاهرة".

(كتاب الكراهية، فصل في الكسب، ج:2، س:529، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144511102080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں