بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ یا دکان تعمیر ہونے سے پہلے خریدنا اور کرایہ پر دینا


سوال

 آج کل بہت سے ادارے فلیٹ یا دکانیں فروخت کرتے ہیں، جو ابھی تعمیر ہی نہیں کی گئی ہوتیں، بلکہ صرف منظوری حاصل کی گئی ہوتی ہے،  فلیٹ یا دکان خریدنے کے ساتھ آپ اسی ادارے کو وہی دکان یا فلیٹ کرائے پر دے  سکتے ہیں اور وہ اسی مہینے سے کرایہ بھی ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ ابھی دکان یا فلیٹ کی تعمیر شروع بھی نہیں کی گئی ہوتی،  کیا ایسی صورت میں کرایہ وصول کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس  پلاٹ پر ابھی تک تعمیر نہ ہوئی ہو، اُس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک موجود ہوں، اُس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوتا؛ کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو  اور معدوم ہو  اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جواز  کی دو صورتیں ہیں:

(1)  ایک یہ ہے کہ جو مکان یا دکان لوگوں کو فروخت کی جارہی ہو   اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو، ایسی صورت میں اُس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

(2)  جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا ہو  مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور تیسری منزل کی دکانیں یا مکانات بیچی جا رہی ہوں تو یہ سودا جائز نہیں ہے، اس صورت میں وعدۂ بیع  (خریداری کا وعدہ)  کیا جاسکتا ہے،  یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ  مثلاً    فلاں مکان فلاں کو  فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہو گا۔

لیکن جو منزل اب تک تیار ہی نہ ہوئی ہو اور اُس کا ڈھانچا بھی کھڑا نہ ہوا ہو اُس دکان کو کسی کو کرایہ پر دے کر اُس کا کرایہ وصول کرنا کسی صورت جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں مالک مکان یا مالک دکان کرایہ دار کو کسی منفعت کا مالک بناتا ہے، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب منفعت وصول کرنے کے لیے مکان یا دکان کا وجود ہو، اگر مکان یا دکان کا وجود ہی نہ ہو گا تو کرایہ داری کا معاملہ ہی درست نہ ہو گا اور کرایہ وصول کرنا بھی نادرست ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(4/ 516، كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى،  ط: سعید)

مجمع الأنهر میں ہے:

"(هي) أي الإجارة (بيع منفعة) احتراز عن بيع عين (معلومة) جنسًا وقدرًا (بعوض)".

(کتاب الاجارۃ، 2/ 368)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 4):

"وشرعاً (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني؛ ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں