بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الیکٹرانک سگریٹ اور vaping کے کاروبار کرنے والی کمپنی میں نوکری کرنے کا حکم


سوال

میں ایک vaping کمپنی میں ای کامرس پروڈکٹ اسپیشلسٹ کے طور پر کام کرتا ہوں، میرا  کام یہ ہے کہ مذکورہ ادارہ کی پروڈکٹس( e-cigarettes, vapes, kits etc) مذکورہ کمپنی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ  کروں،  کیا میرے لیے  Vaping انڈسٹری میں کام کرنا جائز ہوگا؟ اور میری تنخواہ حلال ہوگی؟

جواب

کھانے پینے کی اشیاء  کے حلال یا حرام ہونے کا مدار اشیاء کی اجزائے ترکیبی کے حلال یا حرام ہونے پر ہے، پس vape، الیکٹرانک سگریٹ  میں اگر نشہ آور کوئی چیز شامل نہ ہو، تو ان کی خرید و فروخت جائز ہوگی،  اور مذکورہ اشیاء کی تجارت کرنے والی کمپنی میں نوکری کرنا، اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، البتہ اگر مذکورہ اشیاء میں نشہ آور مادہ شامل ہو، اور ان کے استعمال سے نشہ آتا ہو تو اس کی نہ تجارت جائز ہوگی، اور نہ ہی ایسی کمپنی میں نوکری کرنا، اور تنخواہ وصول کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے۔"

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص:٥٥٢، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"والحق في إفتاء التحليل، والتحريم في هذا الزمان التمسك بالأصلين اللذين ذكرهما البيضاوي في الأصول، ووصفهما بأنهما نافعان في الشرع،

الأول: أن الأصل في المنافع الإباحة، والمأخذ الشرعي آيات ثلاث الأولى قوله تعالى {خلق لكم ما في الأرض جميعا}، واللام للنفع فتدل على أن الانتفاع بالمنتفع به مأذون شرعا وهو المطلوب، الثانية قوله تعالى {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده}، والزينة تدل على الانتفاع الثالثة قوله تعالى {أحل لكم الطيبات} [المائدة: ٤]، والمراد بالطيبات المستطابات طبعا وذلك يقتضي حل المنافع بأسرها،والثاني: أن الأصل في المضار التحريم، والمنع لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا ضرر ولا ضرار في الإسلام» وأيضا ضبط أهل الفقه حرمة التناول إما بالإسكار كالبنج وإما بالإضرار بالبدن كالتراب، والترياق أو بالاستقذار كالمخاط، والبزاق وهذا كله فيما كان طاهرا وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف خال عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه وإن لم يثبت انتفاعه فالأصل حله مع أن في الإفتاء بحله دفع الحرج عن المسلمين فإن أكثرهم مبتلون بتناوله مع أن تحليله أيسر من تحريمه وما خير رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين أمرين إلا اختار أيسرهما وأما كونه بدعة فلا ضرر فإنه بدعة في التناول لا في الدين فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام ولو نفع ببعض وقصد به التداوي فهو مرغوب ولو لم ينفع ولم يضر هذا ما سنح في الخاطر إظهارا للصواب من غير تعنت ولا عناد في الجواب، والله أعلم بالصواب."

(مسائل وفوائد شتى من الحظر والإباحة وغير ذلك، مسألة أفتى أئمة أعلام بتحريم شرب الدخان، ٢ / ٣٣٢، ط: دار المعرفة )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں