بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کار ٹریکر کمپنی (DYNAMIC TRACKING SOLUTIONS) میں پاٹنرز کو شامل کرنے کے مختلف طریقوں کا حکم اور ان کی جائز صورتیں


سوال

ہم کار ٹریکر کمپنی (DYNAMIC TRACKING SOLUTIONS) چلا رہے ہیں ، جس کی نوعیت یہ  ہوتی ہے کہ ہم مارکیٹ سے ٹریکٹر ڈیوائسس خرید کر گاڑیوں میں لگاتے ہیں، اور  پورا سال اپنے کسٹمرز کو گاڑیوں کی حفاظت کے حوالے سے خدمات بھی دیتے ہیں ، بحیثیتِ کمپنی ہم کچھ پارٹنرز   کمپنی میں شامل کرنا چاہتے ہیں،  جس کی کچھ صورت یوں بن سکتی ہیں   کہ : 

1:  پارٹنر کچھ عدد ڈیوائس کی رقم انویسٹ کریں اور ان ڈیوائسز کے نفع اور نقصان میں برابر کے شریک ہوں ۔

2: پارٹنر  کچھ عدد  ڈیوائس  کی رقم انویسٹ کریں اور کمپنی کے کل منافع میں سے اپنی لگائی گئی رقم کے مطابق نفع حاصل کریں ۔

3: پارٹنر کچھ عدد ڈیوائسز  کمپنی میں انویسٹ کر دیں یا  کمپنی کے نام کردیں اور کمپنی کے کل منافع میں سے ایک مخصوص حصے کے مالک بن کر ایک مخصوص حصے  کے نفع و نقصان کے مالک بن جائیں۔

نوٹ : پہلی  اور دوسری صورت میں معاہدہ دو سال کا ہوگا؛ کیوں  کہ ایک ڈیوائس کی اوسطاً  عمر دو سال ہوتی ہے ۔

شریعت کی روشنی میں ہمارے اس معاملے کی راہ نمائی فرمائیں اور شریعت کے اعتبار سے اور بھی کوئی ممکنہ جائز صورت بنتی ہے تو بھی ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل  نے مذکورہ    ”کار ٹریکر کمپنی“  میں دیگر انویسٹرز کو  شامل کرنے کی جو صورتیں ذکر کی ہیں،  ان کا شرعی حکم ترتیب وار درج ذیل ہے:

1۔ کاروبار میں اگر   ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے شخص  کی محنت ہو   تو شرعًا ایسا معاملہ  "مضاربت" کہلاتا ہے، لہذا مذکورہ صورتوں میں سے    پہلی  صورت شرعاً  ”مضاربت“ کی بن سکتی ہے،  البتہ اس کے لیے درج چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا:

الف  : منافع، حاصل ہونے والے حقیقی نفع  میں سے فیصد کے اعتبار سے طے ہو، مثلا نفع میں سے  انویسٹر کا   ٪ 40  فیصد اور ورکنگ پاٹنر کا ٪60  فیصد وغیرہ۔

ب: نفع اصل سرمایہ  کے فیصد کے اعتبار سے طے نہ کیا جائے ۔

ج: ان انویسٹرز  کی ڈیوائس کے نفع ونقصان  کا  الگ سے حساب رکھا جائے،  کمپنی اپنے سرمایہ  کو اس کے ساتھ نہ ملائے۔

د: کسی ایک فریق کے لیے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط نہ لگائی   جائے۔

ھ:  مضاربت میں  نقصان ہو تو  اس کا حکم یہ   ہے کہ  اس کو پہلے  نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر نقصان  پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے  تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور انویسٹر کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرط یہ کہ مضارب(ورکنگ پارٹنر)  کی طرف سے تعدی  اور کوتاہی ثابت نہ ہو۔

2۔ مذکورہ صورت میں چوں کہ  انویسٹر  کمپنی کے کل منافع میں سے اپنی لگائی گئی رقم کے مطابق نفع حاصل کریں گے تو یہ صورت  شرعا ً ”شرکت“ کی بن سکتی ہے، اس کے  جائز ہونے کے لیے درج ذیل چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا:

الف: نفع اصل سرمایہ  کے فیصد کے اعتبار سے طے نہ کیا جائے،    بلکہ حاصل ہونے والے نفع کے فیصد کے اعتبار سے مقرر کیا جائے۔

ب:  اگر  شراکت دار وں کے  سرمایہ کے تناسب سے، نفع  کو   فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے تو  یہ  بھی جائز ہے، مثلاً انویسٹر کا سرمایہ  کمپنی کے کل  سرمایہ کو ٪5 فیصد ہے، تو   مذکورہ کاروبار سے حاصل ہونے والے کل نفع سے اس کا پانچ فیصد مقرر کیا جاسکتا ہے۔

ج: کسی ایک فریق کے لیے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط نہ لگائی    جائے۔

د: انویسٹر کو  کاروبار میں شریک کرتے وقت پہلے سے موجود کاروبار کے اثاثہ جات  کا مکمل حساب کیا جائے،  پھر نئے  آنے والے انویسٹر کو   اس کے سرمایہ کے حساب سے شریک کیا جائے، اگر کاروبار میں کچھ سامان بھی موجود ہو   تو اس میں سے کچھ سامان انویسٹر کو  اس کی کچھ رقم کے بدلے میں بیچ دیا جائے  اور اس کو قبضہ دے کر پھر دوبارہ ملالیا جائے؛ تاکہ ہر شریک کا نقد اور سامان دونوں میں حصہ ہوجائے۔

ھ: نقصان کی صورت میں  پر شریک  ہر اس کے سرمایہ  کے تناسب سے نقصان کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

3: انویسٹر  کےخود   ڈیوائس خرید کر کمپنی کو دے کر  اس کے نفع میں شریک ہونے کی مذکورہ صورت  شرعاً  جائز نہیں ہے، اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ  انویسٹرز   خود ڈیوائس خرید کر، یا کمپنی ان  کی طرف سے ڈیوائس خرید کر ان کو قبضہ دے دے، پھر یہ اپنا  نفع رکھ کر  کمپنی کو ادھار میں فروخت کردیں، اور کمپنی طے شدہ مدت میں ان کی رقم ادا کرتی رہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تصح مفاوضة وعنان) ذكر فيهما المال وإلا فهما تقبل ووجوه (بغير النقدين، والفلوس النافقة والتبر والنقرة) أي ذهب وفضة لم يضربا (إن جرى) مجرى النقود (التعامل بهما) وإلا فكعروض.

(قوله: بغير النقدين) فلا تصحان بالعرض ولا بالمكيل والموزون والعدد المتقارب قبل الخلط بجنسه، وأما بعده فكذلك في ظاهر الرواية فيكون المخلوط شركة ملك وهو قول الثاني.وقال محمد: شركة عقد، وأثر الخلاف يظهر في استحقاق المشروط من الربح، وأجمعوا أنها عند اختلاف الجنس لا تنعقد نهر (قوله: والفلوس النافقة) أي الرائجة، وكان يغني عنه ما بعده من التقييد بجريان التعامل والجواز بها هو الصحيح؛ لأنها أثمان باصطلاح الكل فلا تبطل ما لم يصطلح على ضده نهر (قوله: والتبر والنقرة) في المغرب: التبر ما لم يضرب من الذهب والفضة والنقرة القطعة المذابة منهما. اهـ. زاد في المصباح: وقيل الذوب هي التبر، فما ذكره الشارح يصلح تفسيرا لهما لأخذ عدم الضرب في كل منهما لكن الفرق بينهما أن التبر لم يذب في النار تأمل.

(قوله: إن جرى التعامل بهما) قيد بذلك زيادة على ما في الكنز ليوافق الرواية المصححة كما أوضحه في البحر."

 (کتاب الشركة، 4 / 310، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه...وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."

( كتاب الشركة،الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، 2/ 320، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين".

( كتاب المضاربة، 5 / 656، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"منها: (شرائط جواز الشركة) أن يكون الربح معلوم القدر ... وأن يكون جزءً شائعًا في الجملة لا معينًا ... أما الشركة بالأموال فلها شروط، منها أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة ... وهي الدراهم والدنانير عنانًا كانت الشركة أو مفاوضة ... ولو كان من أحدهما دراهم ومن الآخر عروض فالحيلة في جوازه أن يبيع كل واحد منها نصف ماله بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا ويخلطا جميعًا حتى تصير الدراهم بينهما والعروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز".

(كتاب الشركة، 6/59، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں