بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی نذر پورا کرنے کا حکم


سوال

اگر نذر دوسرا شخص پورا کرے تو کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نذر کسی بدنی عبادت کی ہو مثلاً نماز   یا روزہ کی تو دوسرے کے ادا کرنے سے نذر ماننے والے کا ذمہ بری نہیں ہوگا، بلکہ نذر ماننے والے کے لیے خود ادا کرنا ضروری ہوگا، اور اگر نذر مالی عبادت کی ہے،مثلاً  یہ نذر مانی کہ سو روپے صدقہ کروں گا تو دوسرے کے ادا کرنے سے  نذر ماننے والے کا ذمہ بری ہوجائے گا بشرطیکہ نذر ماننے والی کی اجازت سے ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما،----(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقا) عند القدرة والعجز ولو النائب ذميا،لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقا، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط) لكن (بشرط دوام العجز إلى الموت) لأنه فرض العمر حتى تلزم الإعادة بزوال العذر

وفي الرد:(قوله كزكاة) أي زكاة مال أو نفس كصدقة الفطر أو أرض كالعشر، ودخل في الكاف النفقات، وأشار إلى أن المراد بالمالية ما كان عبادة محضة أو عبادة فيها معنى المؤنة أو مؤنة فيها معنى العبادة كما عرف في الأصول (قوله وكفارة) أي بأنواعها من إعتاق وإطعام وكسوة بحر (قوله تقبل النيابة) الأصل فيه أن المقصود من التكاليف الابتلاء والمشقة، وهي في البدنية بإتعاب النفس والجوارح بالأفعال المخصوصة، وبفعل نائبه لا تتحقق المشقة على نفسه فلم تجز النيابة مطلقا إلا عند العجز وعدم القدرة. وفي المالية بتنقيص المال المحبوب  بإيصاله إلى الفقير، وهو موجود بفعل النائب."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغيرج:2، ص: 598/595، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں