بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ غسل یا استنجے کے تھوڑا بہت پانی شرمگاہ میں چلا جانے کا حکم


سوال

(1) دورانِ غسل یا استنجاتھوڑا بہت پانی شرمگاہ میں چلا جاتا ہے، پھر غسل اور استنجاکے بعد اگر شرمگاہ سے قطرہ نکلے، اور ہمیں یقین ہو، کہ یہ سو فیصد پانی ہی ہے، تو وضو کا کیا حکم ہوگا؟ برائے کرم مدلل اور تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں، چند علماء سے پوچھا لیکن دل مطمئن نہیں ہے، کیوں کہ سب کی آراء مختلف تھیں۔

 (2) بچہ نیا نیا بالغ ہوا، ظاہر ہے، اس کو ضروری مسائل معلوم نہیں ہوں گے، اگر اس نے فرض روزے کو کچھ کھا پی کر جان بوجھ کر توڑ دیا، تو کیا ایسے بچہ پر کفارہ (دو مہینے کے مسلسل روزے) آئے گا؟ بچے کا کہنا ہے  کہ مجھے تو اس کا کسی نے نہیں بتایا، ورنہ میں روزہ نہیں توڑتا، نیز یہ بچہ کفارے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تو کیا حکم ہے؟ دارالحرب اور دالاسلام دونوں صورتوں کا حکم بتلادیں۔

(3) :آج کل کا ایک کمزور ایمان والا مسلمان جس کے لیے ایک روزہ رکھنا مشکل ہے، تو دو مہینے کے مسلسل روزوں کی طاقت نہیں رکھتا، تو کیا یہ ساٹھ مسکینوں کو  کھانا کھلا سکتا ہے؟ کفارہ ادا ہو جائے گا؟

جواب

(1)صورتِ  مسئولہ میں اگر دورانِ غسل   یا استنجا  شرمگاہ کے اندر والے حصہ میں پانی چلا  گیا ہو اور وہ وضو کے بعد باہر نکلا ہو تو اس سے  وضو ٹوٹ جائے گا،اس  لیے کہ اس  صورت میں قوی امکان ہے کہ اس کے ساتھ  نجاست  خلط ہوکر آئی ہو، لیکن اگر پانی شرمگاہ کے باہر والے حصے میں ہی ہو اور وضو کے بعد اس کی تری محسوس ہو تو  اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

(2) بچہ جب  بالغ  ہوجائے تو  روزہ رکھ کر  قصداًتوڑنے کی وجہ   سے اس پر قضا اور   کفارہ  دونوں   لازم ہوں گے،   دار الاسلام  میں رہتے ہوئے دینی مسائل کا علم نہ ہونا کوئی عذر نہیں ہے، البتہ اگر دارالکفر میں ہو تو  پھردینی مسائل کا علم نہ ہونا   عذر شمار ہوگا۔

(3)اگر كسی  پر روزے کا کفارہ واجب ہو، تواس پر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہیں، اس میں سہولت کے لیے یہ گنجائش ہے سال کے جو ایام چھوٹے  اور ٹھنڈےہوتے ہوں، اُن میں  کفارے کاروزہ رکھ لیں ، تھوڑی بہت مشقت ،اور سُستی کی وجہ سے کفارہ میں ساٹھ روزے رکھنے کا شرعی حکم ساقط نہیں ہوگا ،البتہ اگر ساٹھ روزے ایک ساتھ رکھنے بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفا یابی کی امید نہ ہو،استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادینا یا ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے بقدر گیہوں (یعنی: ایک کلو /۶۳۳گرام گیہوں) یا اس کی قیمت دینے سے کفارہ ادا  ہوجائے گا، صرف یہ سوچ کرکہ ہم عملی طور پرکمزور ہیں اس لیے کفارہ صوم  میں تخفیف کے حق دار ہے،اس سے تحفیف  حاصل نہیں ہوگی،تحفیف کا مدار شریعت نے ساٹھ روزے رکھنے کی طاقت نہ ہونے پر رکھا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أي برطوبة الفرج فيكون مفرعاً على قولهما بنجاستها أما عنده فهي طاهرة، كسائر رطوبات البدن".

"(قوله: برطوبة الفرج ) أي الداخل بدليل قوله: أولج، وأما رطوبة الفرج الخارج فطاهر اتفاقاً ا هـ ح  وفي منهاج الإمام النووي: رطوبة الفرج ليست بنجسة في الأصح ، قال ابن حجر في شرحه: وهي ماء أبيض متردد بين المذي والعرق يخرج من باطن الفرج الذي لايجب غسله، بخلاف ما يخرج مما يجب غسله فإنه طاهر قطعاً، ومن وراء باطن الفرج؛ فإنه نجس قطعاً ككل خارج من الباطن كالماء الخارج مع الولد أو قبيله." 

( كتاب الطهارة،باب الأنجاس، ج:1، ص: 313،  ط:دارالفكر)

وفیه أيضاً:

"فإن عجز عن الصوم لمرض لا یرجی بروہ أو کبر أطعم أی: ملک ستین مسکیناً … کالفطرة قدراً ومصرفاً ۰و قیمة ذلک من غیر المنصوص…وإن أراد الإباحة فغداھم وعشاھم أو غداھم وعشاھم قیمة العشاء أو عکسه… وأشبعھم جاز."

(کتاب الطلاق، باب الظھار، فصل فی الکفارة، ج:5، ص:143، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالجواب أن هذا ليس من باب النسيان بل من الجهل بحكم الشرع والجهل بحكم الشرع ‌ليس ‌بعذر والنسيان عذرألا ترى أن من ظن أن الأكل لا يفطر الصائم فأكل بطل صومه ولو أكل ناسيا لا يبطل."


(كتاب الذبائح والصيود،فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول،ج:5، ص:50 ط: دارالکتب العلمیه)

وفیه أيضاً:

"والجهل به ‌ليس ‌بعذر؛ لأن دار الإسلام دار العلم بالشرائع، فيمكن الوصول إليها بالتعلم."

(كتاب النكاح، فصل شرائط اللزوم، ج:2، ص:216، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوى هندية میں ہے:

"إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة."

(كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة،ج:1، ص:205، ط:دارالفكربيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں