دوائی بنانے کی مختلف کمپنیاں ہوتی ہیں اور ایک ہی دوائی مختلف کمپنیاں اپنے نام سے بناتی ہے،پھر کمپنی کے نمائندے ڈاکٹر حضرات کے پاس جاتے ہیں اوران سے یہ ڈیل کرتے ہیں کہ آپ ہماری کمپنی کی دوائی لکھ کردے،اس کے بدلے میں کمپنی ڈاکٹر حضرات کو مراعات دیتی ہے اور گھمانے کے لیے بھی لے جاتی ہے،کبھی کبھار صرف ان کے فیملی کو لے جاتی ہیں توپوچھنایہ ہے کہ مذکورہ مراعات کی بنیاد پر مریض کو کسی خاص کمپنی کی دوا لکھ کر دینا کیسا ہے؟اور اس پر مراعات حاصل کرنے کاکیا حکم ہے؟اور کمپنی کو جو منافع ہوتا ہے،اس کا کیا حکم ہوگا؟یہ بھی واضح رہے کہ دوائی ایک ہی ہوتی ہے اور مختلف کمپنیاں اس کو اپنے نام سے بناتی ہے۔
واضح رہے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مدِ نظر رکھنا شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے، لہذا اگر ڈاکٹر اپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت ہی کو ملحوظ رکھتا ہو اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کے لیے علاج/دوا تجویز کرتا ہو تو یہ جائز نہیں ہے اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا، اور اس کے لیے اس کے عوض کمپنی سے کمیشن وغیرہ لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔
البتہ اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہی دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو اور قیمت بھی مناسب ہو اور اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت بھی کی جائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے لیے کمپنی سے کمیشن/ تحائف یا دیگر مراعات لینے کی گنجائش ہے:
1۔محض کمیشن وصول کرنے کی خاطر ڈاکٹر غیر معیاری وغیر ضروری اور مہنگی ادویات تجویز نہ کرے۔
2۔ کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید سمجھتے ہوئے خاص اس کمپنی ہی کی دوا تجویز نہ کرے ۔
3۔ دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن / تحفہ /مراعات کا خرچہ ادویات مہنگی کر کے مریض سے وصول نہ کریں ۔
4۔ دوا ساز کمپنیاں کمیشن، تحفہ ومراعات کی ادائیگی کا خرچہ وصول کرنے کے لیے ادویات کے معیار میں کمی نہ کریں ۔
5۔ نیز اس کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفید اور دوسری اس طرح کی دواؤں سے مہنگی نہ ہوں۔
لہذا ڈاکٹرحضرات اگر ان مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کریں تو ان کے لیے دواساز کمپنیوں سے مقررہ کمیشن یا دیگر اشیاء کا وصول کرنا جائز ہوگا اور اگر ان شرائط کا لحاظ نہ رکھیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے کمپنی سے دوا تجویز کرنے کے بدلے میں کمیشن یا تحفہ کے نام سے کچھ لینا دینا دونوں ناجائز ہوگا،تاہم اس عمل سے کمپنی کو جو نفع حاصل ہوگا وہ حلال ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."
(کتاب الإجارۃ، باب فسخ الإجارۃ ، مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا، 95/6، ط: سعید)
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :
"(المادة 465) يلزم بيان مقدار بدل الإجارة ووصفه إن كان من العروض أو المكيلات أو الموزونات أو العدديات المتقاربة."
( الکتاب الثانی فی الإجارات، الفصل الأول فی بدل الإجارۃ، 88، ط: نور محمد کارخانه )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101389
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن