بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دواساز کمپنیوں کی طرف سے بطور سیمپل ملنے والی دوائی ڈاکٹروں سے کم قیمت پر خرید کر مریضوں کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

میڈیسن کے سیمپل بیچنے کے لیے نہیں ہوتے، وہ میڈیسن مارکیٹ سے کم قیمت پر ملتے ہیں، کیا ہم ان کو خرید کر آگے بیچ سکتے ہیں جب کہ وہ سیمپل کمپنی ڈاکٹر کو دینے کے لیے دیتی ہے، میڈیکل ان کو چوری چھپے سیل کرتے ہیں، پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ کام جائز ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ڈاکٹروں کو دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے جو میڈیسن (دوائی) سیمپل (نمونہ) کے طور پر  ملتی ہے جس پر "note for sale" بھی لکھاہوا ہوتا ہے، اس کا حکم یہ کہ اگر دواسازکمپنیاں ڈاکٹروں کو وہ میڈیسن بطورِ ہبہ (گفٹ) دیتی  ہیں، یعنی مالک بناکر دیتی ہیں، تو لینے والا ڈاکٹر ان دواؤں کا مالک اور ان میں ہر قسم کے تصرف کا مجاز ہے،  یعنی چاہے وہ فروخت کرے یا کسی مریض کو ہدیہ کرے، لہذا اس صورت میں میڈیکل والوں کا ڈاکٹروں سے مذکورہ میڈیسن خرید کر مریضوں پر فروخت کرنا جائز ہے۔

لیکن اگر دواسازکمپنیاں مذکورہ دوائیں ڈاکٹروں کو بطورِ وکالت دیتی ہیں، یعنی (مریضوں کو مفت دینے کے لیے دیتی ہیں) تو پھر ڈاکٹر اس دوا کے مالک نہیں ہوتے، بلکہ یہ دوائیں ان کے پاس امانت ہیں، اور اس کی مثال وقف چندے کی ہے، لہٰذا ڈاکٹروں کو یہ دوائیں بیچنے کا حق نہیں ہوگا، اور اس صورت میں میڈیکل اسٹور والوں کا چوری چھپے مذکورہ میڈیسن ڈاکٹروں سے مارکیٹ سے کم قیمت پر   خرید کر آگے مریضوں کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔

نوٹ: اگر پہلی صورت میں ایسی دواؤں کو فروخت کرنا قانونًا منع ہو، تو بھی ان دواؤں کی خرید و فروخت سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال أصحابنا جميعًا: إذا وهب هبةً وشرط فيها شرطًا فاسدًا فالهبة جائزة، و الشرط باطل كمن وهب لرجل أمة فاشترط عليه أن لايبيعها أو شرط عليه أن يتخذها أم ولد أو أن يبيعها من فلان أو يردها عليه بعد شهر فالهبة جائزة وهذه الشروط كلها باطلة، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الهبة،الباب الثامن فى حكم الشرط فى الهبة، ج:4، ص:396، ط:مكتبة رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته إلا في مسائل مذكورة في الأشباه."

(مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لا يطيب له ولا للمشتري منه.

(قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا (قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه."

(مطلب رد المشترى فاسدًا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:98، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204200366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں