بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں کے درمیان عدل لازمی ہے


سوال

اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور ایک امیر گھرانے سے ہو اور ایک غریب گھرانے سے تو کیا ان دونوں کے درمیان عدل کا معیار بھی مختلف ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،البتہ اگر ایک بیوی امیر گھرانے سے اور دوسرے غریب گھرانے سے تو دونوں کا نفقہ ان کے حیثیت کے مطابق لازمی ہے امیر گھرانے والے پر امیر گھرانے والااور غریب گھرانے والے پر غریب گھرانے والا ، اور  باقی  شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں  مساوات واجب ہے، جماع میں برابری شرط نہیں  اور ممکن بھی نہیں، نیز رہائش میں بھی بالکل برابری اور یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، چھٹیوں کے ایام کی بھی تقسیم کرنی چاہیے،رات کے کسی خاص وقت کی قید نہیں،  بلکہ دونوں کی رضا مندی سے راتیں تقسیم کی جائیں، مثلاً جتنی راتیں ایک کے پاس گزارے تو دوسری کے ہاں بھی اتنی راتیں گزارے۔ دن کے وقت خبرگیری تو دونوں کی کرلینی چاہیے، تاہم جو رات جس کی باری ہو، وہ رات اسی کا حق ہے،  اگر  چہ ایک بیوی  امیر گھرانے سے ہو اور دوسری غریب گھرانے  دونوں میں یہ برابری لازمی ہے،۔

اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی، اگر کسی ایک بیوی کی جانب قلبی میلان زیادہ ہوتو یہ قابل مؤاخذہ نہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰىأَلَّا تَعُوْلُوْا﴾."

(النساء3)

"ترجمہ:اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔(بیان القرآن )"

حدیث مبارکہ میں ہے۔

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(سنن أبي داؤد،باب في القسم بين النساء،ج 3 ،ص 469،دار الرسالة العالمیة)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

تیسری حدیث شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".

(الصحیح للمسلم كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل، ج:6، ص:7، رقم 1827، ط: دارالطباعة العامرة)

"ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔"

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ."

( كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ج:1، ص:544، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع".

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة،مطلب في الكسوة، ج:1، ص:555، ط: رشيدية)

و فيه أيضاً:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها..." الخ."

( كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني ، ج:1، ص:556، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور. (قوله وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع."

(کتاب النکاح ،باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص:202، ط:سعید)

 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

" فإن كان له أكثر من امرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من القسم والنفقة والكسوة، وهو التسوية بينهن في ذلك حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان أو أمتان يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة.

والأصل فيه قوله عز وجل: {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدةً} [النساء: 3] عقيب قوله تعالى: {فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع} [النساء: 3] أي: إن خفتم أن لاتعدلوا في القسم والنفقة في نكاح المثنى، والثلاث، والرباع، فواحدة. ندب سبحانه وتعالى إلى نكاح الواحدة عند خوف ترك العدل في الزيادة."

(كتاب النكاح، فصل وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ج:2، ص: 332، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة).

وفي الرد: (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لا بمعنى التسوية، فإنها لا تلزم في النفقة مطلقا. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي، والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا، فإن إحداهما قد تكون غنية والأخرى فقيرة، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقا في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنيا على اعتبار حاله."

(ج:3، ص:202، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ط:سعيد)

وایضاً:

"(وللأمة والمكاتبة وأم الولد والمدبرة) والمبعضة (نصف ما للحرة) أي من البيتوتة والسكنى معها،أما النفقة فبحالهما.

وفي الرد: (قوله: أما النفقة) هي الأكل والشرب واللبس والمسكن (قوله: فبحالهما) أي إن كان كل من الزوج والزوجة غنيين فالواجب نفقة الأغنياء أو فقيرين فنفقة الفقراء أو مختلفين فالوسط، وهذا هو المفتى به كما مر، وقدمنا أن كلام المصنف والشارح محمول عليه فافهم."

(ج:3، ص:206، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں