بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعا ’’اللَّهُمَّ خِرْ لي وَاخْتَرْ لي‘‘ کا حدیث سے بطور استخارہ ثبوت


سوال

 اللهم خرلي واخترلي

کیا یہ دعا،  استخارہ کے طور پر حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

مذكوره  دعا بطور استخاره(یعنی بطور طلبِ خير)   حديث مبارک  میں وراد ہوئی ہے،  سننِ ترمذی میں ہے: 

"عن أبي بكر الصديق، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أمرًا، قال: اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي."

"ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا فرماتے: « اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي »یعنی  ”اے اللہ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما، اور میرے لیے بہتر کوپسند فرما۔"

(سنن الترمذى، ابواب الدعوات، باب، (5/ 418) برقم (3516)، ط/  دار الغرب الإسلامي- بيروت)

حكمِ حديث: 

امام ترمذی رحمہ اللہ (المتوفى: 279ھ) فرماتے ہیں : 

" هذا حديث غريب، لانعرفه إلا من حديث زنفل: و هو ضعيف عند أهل الحديث، و يقال له: زنفل بن عبد الله العرفي، و كان يسكن عرفات، و تفرد بهذا الحديث، و لايتابع عليه."

"يعني  كه یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے زنفل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے نہیں جانتے، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور انہیں زنفل بن عبداللہ عرفی بھی کہتے ہیں، وہ عرفات میں رہتے تھے، وہ اس حدیث میں منفرد ہیں، (یعنی یہ روایت صرف انہوں نے ہی بیان کی ہے)  اور کسی نے بھی ان کی متابعت نہیں کی ہے۔"

معلوم ہوا کہ مذكوره روايت ، امام ترمذی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق ضعیف ہے،  لیکن چونکہ یہ روایت ، فضائل کے باب میں سے ہے،لہذا  اس پر عمل کی گنجائش ہے ،  اور یہی وجہ ہے کہ کئی اہل علم نےاس روایت کے ضعیف ہونے کے باوجودبھی   اسے کتب ادعیہ وغیرہ میں بطور معمول کے نقل فرمایا ہے،  جیسے کہ امام نَوَوِی رحمہ اللہ (المتوفى: 676ھ) نے مذکورہ دعا امام ترمذی رحمہ اللہ  کے ضعف کی صراحت کے ساتھ ’’الأذكار‘‘ میں استخارہ کی  دعا کے باب میں نقل فرمائی ہے ، امام  نووی رحمہ اللہ کی عبارت  پیشِ خدمت ہے: 

" و روينا في كتاب الترمذي بإسناد ضعيف، ضعَّفه الترمذي وغيره، عن أبي بكر رضي الله عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد الأمر قال: "اللَّهُمَّ خِرْ لي وَاخْتَرْ لي."

(الأذكار، باب دعاء الاستخارة، (ص: 120)، برقم (342)، ط/ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144505100637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں