بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دعا اللهم اقذف في قلبي رجاك واقطع رجائي عن من سواك، حتى لا أرجوا أحدا غيرك کی تحقیق


سوال

اللهم اقذف في قلبي رجاك واقطع رجائي عن من سواك، حتى لا أرجوا أحدا غيرك.

کیا مندرجہ بالا دعا مستند و مسنون ہے؟ اور احادیث سے ثابت شدہ دعا ہے؟

جواب

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی :571 ھ)نقل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی مالی تنگی، اور قرضوں ميں  مبتلا هو گئےتھے، اور ان كا اراده تھا  کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھ کر اپنا مقرر وظیفہ طلب کریں، جو وہ دینا بھول گئے تھے، اتنے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ لگ گئی  تو  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  خواب میں تشریف لائے اورمذکور دعا کی تلقین فرمائی، اور یہ دعا پڑھنے کے نتیجہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں دگنا وظیفہ بھیج دیا، حافظ ابن عساکر رحمه الله اپنی سند سے نقل فرماتے میں :

"أنبأنا بها أبو محمد عبد الجبار بن محمد وحدثنا أبو السحن علي بن سليمان بن احمد عنه أنبأنا أبو بكر احمد بن الحسين البهيقي أنا أبو عبد الله الحافظ اخبرني أبو عبد الله الحسين بن العباس الشهرزوري ببغداد نا أبو بكر احمد بن الفرج نا احمد بن عبيد نا أبو المنذر هشام بن محمد عن أبيه قال: اضاق الحسن بن علي، وكان عطاؤه في كل سنة مائة ألف، فحبسها عنه معاوية في إحدى السنين، فأضاق إضاقة شديدة، قال: فدعوتُ بدواة لأكتبَ إلى معاوية لأذكره نفسي، ثم امسكت، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام، فقال: كيف أنت يا حسن!؟ فقلت: بخير يا ابة! وشكوت إليه تأخر المال عني، فقال: ادعوت بدواة لتكتب إلى مخلوق مثلك، تذكره ذلك؟ قلت: نعم، يا رسول الله! فكيف اصنع؟ قال: قل: اللهم اقذف في قلبي رجاك واقطع رجائي عن من سواك، حتى لا أرجوا أحدا غيرك،  اللهم وما ضعفت عنه قوّتي وقصر عنه عملي، ولم تنته إليه رغبتي، ولم تبلغه مسألتي، ولم يجر على لساني مما اعطيت أحدا من الأولين والآخرين من اليقين، فخصّني به يا رب العالمين! قال: فوالله ما ألححتُ به اسبوعا، حتى بعث الي معاوية ألف بألف وخمس مائة ألف، فقلت: الحمد لله الذي لا ينسى مَن ذكره، ولا يخيب مَن دعاه، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فقال: يا حسن! كيف أنت؟ فقلت: بخير يا رسول الله! وحدثته حديثي، فقال: يا بني! هكذا مَن رجا الخالق ولم يرج المخلوق."

(تاريخ مدينة دمشق، حرف الظاء فارغ  حرف العين في آباء من اسمه الحسن (13/ 166و167)، ط/ دار الفكر1995ء)

روایت کا حکم:

"اس روایت کی سند میں ضعف ہے؛ کیوں کہ اس کے واقعہ کے بنیادی راوی محمد بن سائب، اور ہشام بن محمد ہیں۔ یہ دونوں رافضی ہیں اور روایت ِ حدیث کے باب میں متروکین میں سےشمار ہوتےہیں، جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ(المتوفى : 748ھـ) نےان سے متعلق صراحت فرمائی ہے ۔"

(سير أعلام النبلاء، الطبقة العاشرة، (10/ 101)، مؤسسة الرسالة 1405ھ)

  لہذا  مذكوره دعا كو بطور حدیث بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، البتہ   دعا کے الفاظ  درست  ہیں، اور ان الفاظ کو دعا کے طور پر پڑھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، کیونکہ ان الفاظ  سے ملتے جلتے کچھ دعائیہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت  ہیں:

سنن الترمذی میں ایک طویل دعا کے درمیان میں یہ الفاظ ہیں:

 "اللهم ما قصر عنه رأيي، ولم تبلغه نيتي، ولم تبلغه مسألتي من خير وعدته أحدا من خلقك، أو خير أنت معطيه أحدا من عبادك، فإني أرغب إليك فيه، وأسألكه برحمتك رب العالمين."

(سنن الترمذى، باب من أبواب الدعوات (5/ 357) برقم (3419)، ط/ دار لغرب الإسلامي 1998م)

اگرچہ اس  روایت کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن    دعاؤں کی حیثیت سے قابلِ عمل  ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں