بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیوٹی پر تین ؍ چار منٹ تاخیر سے پہنچنا


سوال

اگر کوئی بندہ سکول ٹیچر ہو اور کسی دن وہ تین چار منٹ لیٹ ہو  ڈیوٹی سے تو کیا یہ غفلت میں آئے گا اور اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟

جواب

جن اساتذہ کے ساتھ ادارے کا مخصوص وقت کا معاہدہ ہوا ہو تو ایسے اساتذہ  کی شرعی حیثیت  اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور  اجیرِ خاص کے لیے   ملازمت کے اوقات میں جائے ملازمت میں حاضر رہنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، اور اسی بنا پر وہ   اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اور جن اوقات میں وہ حاضر نہ رہتا ہو، ان اوقات کی تنخواہ کا شرعًا وہ حق دار نہیں ہوتا۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اور متعلقہ ادارے كے درميان تاخير سے آنے كی صورت ميں تنخواه كی كٹوتی كے سلسلے ميں كوئی  جائز معاہدہ  ہوا ہو تو اسی كے مطابق عمل كيا جائے گا، ليكن اگر كوئی معاہدہ نہيں ہوا تو   جن ایام میں جتنی تاخیر ہو اس کے تناسب سے تنخواہ کا جتنا حصہ بنتا ہو وہ ادارے سے وصول کرنا سائل کے لیے جائز نہ ہوگا، وصول کرلینے کی صورت میں متعلقہ ادارہ کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

’’(قوله: والأجير الخاص هو الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل كمن استأجر رجلا شهرا للخدمة، أو لرعي الغنم) وإنما سمي خاصا؛ لأنه يختص بعمله دون غيره؛ لأنه لا يصح أن يعمل لغيره في المدة.‘‘

( كتاب الإجارة، الأجير المشترك والأجير الخاص، ١ / ٢٦٥، ط: المطبعة الخيرية)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

’’(و الثاني) و هو الأجير (الخاص) و يسمى أجير وحد (و هو من يعمل لواحد عملًا مؤقتًا بالتخصيص و يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة و إن لم يعمل كمن استؤجر شهرًا للخدمة أو) شهرًا ... و تحقيقه في الدرر و ليس للخاص أن يعمل لغيره، و لو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: عملًا مؤقتًا) خرج من يعمل لواحد من غير توقيت كالخياط إذا عمل لواحد ولم يذكر مدة ح.... (قوله: و إن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة.‘‘

  (کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، ٦ / ٦٩ - ٧٠،  ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں