کیا اپنی شادی کے لیے یا دیگر کاموں کے لیے استخارہ کسی اور سے کروا سکتے ہیں یا خود ہی کر نا چاہیے؟ اگر اولاد کے لیے استخارہ اس کے والدین کریں یا اس کے دوست، کیا وہ استخارہ کر سکتے ہیں؟
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآنِ کریم کی سورت یا آیت۔ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امور میں مشورہ تو لیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’استخارہ‘‘ نہیں کرواتے تھے، حال آں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدس وبرگزیدہ کوئی انسان نہیں، نیز اس وقت وحی بھی نازل ہوتی تھی جس کی روشنی میں خیر وشر یقینی طورپر معلوم ہوسکتاتھا، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے استخارہ کروایا اور نہ ہی کسی اور کے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کیا، پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا خواست گار ہو۔
لہٰذا سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحبِ معاملہ خود استخارہ کرے ، اسی میں برکت ہے۔
استخارہ سے متعلق تفصیلی راہ نمائی کے لیے "استخارہ سنت کے مطابق کیجیے" کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا، جس کو درج ذیل لنک سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200786
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن