بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کا حکم


سوال

 میری شادی کو گیارہ سال ہو چکے ہیں،   یہ میری دوسری اہلیہ ہے؛ میری پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد سن 2010  میں ان سے شادی ہوئی تھی، لیکن میری بیوی اکثر و بیشتر مختلف مسئلوں پر ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر لاہور شہر میں رک جاتی ہے،  جب کہ میرے گھر میں میرے بوڑھے والد اور ایک سولہ سالہ بیٹی ہے جو کہ میری پہلی بیوی سے ہے اور میں خود شوگر کا مریض ہوں ۔میرے گھر میں کوئی عورت نہیں جو میرے والد اور میری بیٹی کا خیال رکھ سکے اور اس کی تربیت کر سکے۔ اس سے پہلے دو ماہ اپنے والدین کے بنا میری مرضی اور اجازت کے رہیں۔ اس کے بعد 2019 میں چار ماہ پھر دوبارہ اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہی  اور  اب پھر 2020 میں چھ ماہ سے اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہے۔  نہ ہی ان کے والدین کوئی رابطہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ مجھ سے خود رابطہ کرتی ہے،  اور  میرے دس  سال کے بیٹے کے ساتھ وہاں موجود ہے۔  میں اب ایک اور نکاح کرنا چاہتا ہوں؛ تاکہ میں معاملات کو اور اپنے گھر کو سنبھال سکوں؛ کیوں کہ نہ ان سے اور نہ ہی ان کے والدین سے کوئی رابطہ ہے  اب  میرا۔  جب کہ میری اہلیہ ماضی میں بنا کسی شرعی عذر کے بہت بار طلاق کا تقاضا کرچکی ہے اور یہی تقاضا ان کے والد بھی زبانی طور پر کر چکے ہیں، جس کا جواب دیا گیا کہ میں بنا کسی وجہ کے صرف ان کی خواہش کی بنا پر ان کو طلاق نہیں دے سکتا، جب کہ ان کی بہت ساری ایسی غلطیاں جو کہ بہت سنگین نوعیت کی ہیں، اللہ کی بندی سمجھ کر  معاف کی جا چکی ہیں۔ جب کہ ان کا اس گھر میں خیال بھی رکھا جاتا ہے اور ماہانہ خرچ بھی دیا جاتا ہے، کیا مجھے نکاح کرنے کی اجازت ہے شرعی طور پر اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر ؟

جواب

دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط نہیں ہے ۔ تاہم پہلی بیوی کو طلاق نہ دینے کی صورت میں  اگر دونوں بیویوں کو رکھنے کے لیے آپ جسمانی اور مالی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے۔ 

نیز  (بصورتِ  صدقِ  سوال) بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر چھوڑ کر چلے جانا اور طلاق کا مطالبہ کرنا بھی ناجائز ہے۔

"سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل" (3 / 469)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں