بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کرنا اور بیویوں میں برابری کرنا


سوال

ایک ڈاکٹر کا شوہر دوسری شادی اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر کر سکتا ہے؟ جب کہ سارا مال اس کی پہلی بیوی کا ہو اس کے پاس۔ نیز جس سے شادی کر رہا ہو، اس کا شوہر 10 سال سے گم ہو۔ دوسری بیوی کے کیا حقوق ہوں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جس عورت سے دوسری شادی کرنے جارہا ہے، اگر وہ کسی اور کی منکوحہ ہے تو سابق شوہر سے نکاح قائم رہنے تک اس سے نکاح کرنا ناجائز ہے۔ اور اگر نکاح ختم ہوجائے تو اس کی عدت کے بعد اس سے دوسری شادی کرنا جائز ہوگا، بشرطیکہ یہ شخص دوسری بیوی کا مہر خود ادا کرنے اور دونوں بیویوں کے نان و نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مالی و جسمانی حقوق برابری سے ادا کرتا رہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ   بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں واجب ہے، جماع میں برابری شرط نہیں  اور ممکن بھی نہیں، نیز رہائش میں بھی برابری اور یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، چھٹیوں کے ایام کی بھی تقسیم کرنی چاہیے، اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی۔

رات کے کسی خاص وقت کی قید نہیں،  بلکہ دونوں کی رضا مندی سے راتیں تقسیم کی جائیں، مثلاً جتنی راتیں ایک کے پاس گزارے تو دوسری کے ہاں بھی اتنی راتیں گزارے۔ دن کے وقت خبرگیری تو دونوں کی کرلینی چاہیے، تاہم جو رات جس کی باری ہو، وہ رات اسی کا حق ہے، اس لیے آفس وغیرہ کے کام سے فارغ ہوکر رات اسی بیوی کے گھر گزاریں جس کی باری ہے۔ 

اور اگر شوہر دوسری بیوی کا مہر اور دونوں بیویوں کے نان و نفقہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا دونوں کے حقوق میں برابری نہیں کرسکتا تو اسے دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی۔

باقی جس کا شوہر گم ہو، اس کے نکاح کے متعلق احکام درج ذیل لنک میں ملاحظہ کریں:

شوہر غائب ہوجائے تو عدت اور فسخِ نکاح کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں