بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری بیوی کے مطالبہ پر پہلی بیوی کو طلاق دینے کا حکم


سوال

میں ایک شادی شدہ زندگی گزار رہا تھا، تین بچے بھی ہیں، بیوی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کبھی بن نہیں پڑی۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے پابندیاں بھی رہتی تھیں، گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے ذمہ داریاں بھی کافی ہیں،  شادی نو  سال بعد میرا تبادلہ ایک اور جگہ ہو گیا وہاں کافی خواتین کام کرتی تھیں، ایک خاتون سے انس ہو گیا۔ کافی سال ہمارا تعلق رہا۔ وہ خاتون بھی شادی شدہ تھی۔ دو بچوں کے ساتھ۔ بچوں کی کفالت خاتون ہی کرتی تھی۔ ہمارے تعلق کے کچھ عرصے بعد خاتون نے اپنے شوہر سے خلع لے لی اور آزاد ہو گئی۔ ہمارا تعلق قائم رہا۔ اس دوران میں خاتون مجھ پر زور ڈالتی رہی کہ میں بھی ایک طرف ہو جاؤں پہلی بیوی کو طلاق دے کر۔ لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ اب ہم نے شرعی نکاح کر لیا ہے۔ اب دوسری بیوی کا تقاضا ہے کہ پہلی بیوی کو فارغ کر دوں۔ پاکستانی قانون کی رو سے اگر میں حیلہ کرکے پہلی بیوی کو نادرا کے ریکارڈ سے نکال دوں لیکن شرعی طور پر الگ گھر میں رکھوں تو کیا گناہ ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا شادی شدہ خاتون کے ساتھ تعلق بنانا انتہائی فعلِ شنیع اور سخت گناہ کا کام تھا جس پر سائل کو صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، پھر جب مذکورہ خاتون کے خلع ہونے اور عدت گزرنے کے بعد نکاح ہوا ہے تو وہ نکاح اب درست ہے، اب  بلاوجہ محض مذکورہ بیوی کی وجہ سے پہلی بیوی کو چھوڑنا گناہ پر گناہ ہوگا، جس سے اجتناب ضروری ہے، اور متعلقہ خاتون کے بھی شوہر سے پہلی بیوی کے طلاق کا مطالبہ کرنا غیر شرعی مطالبہ ہے، جس کا پورا کرنا شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے،  سائل کسی بھی طرح اب دونوں بیویوں کے حقوق کی پاسداری کرے ورنہ عنداللہ ماخوذ ہوگا، اور  پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بجائےدوسری بیوی کو حکمت ومصلحت کے ساتھ سمجھا ئے،نیز نکاح میں ہوتے ہوئے نادرا سے نام نکال کر غیر بیوی ظاہر کرنے کا  حیلہ بھی درست نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها»".

(کتاب النکاح، باب الشروط التي لا تحل في النكاح، رقم الحدیث:5152، ج:7، ص:20، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔"

إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري(شرح القسطلانی) میں ہے:

"(عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) أنه (قال): (لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها) في النسب أو في الرضاع أو في الدين أو في البشرية لتدخل الكافرة أو المراد الضرة ولفظ لا يحل ظاهر في التحريم لكن حمل على ما إذا لم يكن هناك سبب مجوّز كريبة في المرأة لا يسوغ معها الاستمرار في العصمة وقصدت النصيحة المحضة  إلى غير ذلك من المقاصد الصحيحة وحمله على الندب مع التصريح بالتحريم بعيد، وفي مستخرج أبي نعيم لا يصلح لامرأة أن تشترط طلاق أختها وبلفظ الأشراط تحصل المطابقة بين الحديث والترجمة وظاهر هذه الرواية التي فيها لفظ الشرط أن المراد الأجنبية فتكون الأخوة في الدين ويؤيده ما في حديث أبي هريرة عند ابن حبان: لا تسأل المرأة طلاق أختها فإن المسلمة أخت المسلمة (لتستفرغ صحفتها) أي تجعلها فارغة لتفوز بحظها من النفقة والمعروف والمعاشرة، وهذه استعارة مستملحة تمثيلية شبه النصيب والبخت بالصحفة وحظوظها وتمتعها بما يوضع في الصحفة من الأطعمة اللذيذة وشبه الافتراق المسبب عن الطلاق باستفراغ الصحفة عن تلك الأطعمة، ثم أدخل المشبه في جنس المشبه به واستعمل في المشبه ما كان مستعملًا في المشبه به من الألفاظ. قاله في شرح المشكاة فيما قرأته فيه. وفي حديث أبي هريرة عند البيهقي: لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ إناء أختها ولتنكح أي ولتتزوج الزوج المذكور من غير أن تشترط طلاق التي قبلها (فإنما لها) أي للمرأة التي تسأل طلاق أختها (ما قدّر لها) في الأزل".

(کتاب النکاح، باب الشُّرُوطِ الَّتِي لاَ تَحِلُّ فِي النِّكَاحِ، ج:8، ص:63/ 64، ط:المطبعۃ الکبریٰ)

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي ) میں ہے:

"{وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ذلك أدنى ألا تعولوا} 

فيه أربع عشرة مسألة: الأولى- قوله تعالى:" (وإن خفتم) " شرط، وجوابه (فانكحوا) أي إن خفتم ألا تعدلوا في مهورهن وفي النفقة عليهن (فانكحوا ما طاب لكم) أي غيرهن. وروى الا يمه واللفظ لمسلم عن عروة بن الزبير عن عائشة في قول الله تعالى: (وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع) قالت: يا ابن أختي هي اليتيمة تكون في حجر وليها تشاركه في ما له فيعجبه مالها وجمالها فيريد وليها أن يتزوجها من غير أن يقسط في صداقها فيعطيها مثل ما يعطيها غيره، فنهوا أن ينكحوهن إلا أن يقسطوا لهن ويبلغوا بهن أعلى سنتهن من الصداق وأمروا أن ينكحوا ما طاب لهم من النساء سواهن. وذكر الحديث."

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:3، ج:5، ص:11، ط:المکتبۃ العصریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں