بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی شخص کی ملکیتی میں لگائے ہوئے درختوں کی ملکیت


سوال

دو شخصوں کی زمین آپس میں  ملی ہوئی تھی، اب تک حد بندی نہیں ہوئی تھی کہ ان میں ایک نے زمین میں درخت لگایا، دوسرےنے منع کیا  کہ بھائی اب تک  حد بندی نہیں ہوئی ہے، حد بندی کے بعد معلوم ہوا کہ  درخت لگانے والے نے دوسرے کی زمین میں  لگائے ہیں،  تیس سال تک وہ آدمی اس میں تصرّف کرتا رہا، اب اصل مالکِ زمین  نے درخت ہٹانے کا مطالبہ کیا تو وہ کہتا ہے کہ میں نے  تیس  سال تک اس میں تصرّف  کیا ہے ، کیا  اس تصرّف سے اس  کی ملکیت ثابت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دو شخصوں کی باہم ملی ہوئی زمین میں  کسی ایک شخص نے   اپنے لیے درخت لگائے اور زمین کی حد بندی کے بعد معلوم ہوا کہ یہ درخت دوسرے شخص کی زمین پر ہیں، تو اس صورت میں یہ درخت ،درخت لگانے والے  ہی کی ملکیت شمار ہوں گے، اور زمین کی ملکیت ، زمین کے مالک کی  ہوگی،  اب زمین کا  مالک، درخت کے مالک سے  کہہ سکتا ہے کہ  آپ اپنے درختوں کو اُکھاڑ  کر لے جاؤ، اگر زمین کو اس سے نقصان پہنچتا ہو تو زمین کا مالک ، درخت کے مالک کو  اُکھڑے ہوئے درختوں کی قیمت دے کر خود درخت اس سے لے لے ، یا درخت لگانے والا ، زمین کے مالک کو ان درختوں کی قیمت دینے پر راضی کرکے درخت اس کو دے دے، بہتر یہی ہے کہ باہمی رضامندی ومفاہمت سے درختوں کی مناسب قیمت طے کرکے درختوں کے مالک سے اس کو خرید لینا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك، بزازية.
(قوله: بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله: وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.
أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك، تأمل".

 (6/ 268، كتاب القسمة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں