بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے شوہر کی طلاق کے بعد پہلے متوفی شوہر سے ہونے والے بچوں کی حضانت کا حکم


سوال

ایک عورت شوہر کی موت کے بعد اپنے چار بچوں سمیت دوسری شادی کرلیتی ہے، بچوں میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں شامل ہیں، جن کی عمریں 13 سال، 11 سال، 7 سال اور 2 سال ہیں۔ اب دوسرے شوہر سے بھی شادی کے ایک سال کے بعد طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔  سوال یہ ہے کہ اب طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر دوسرا شوہر مذکورہ عورت کو طلاق دے گا تو لڑکاسات سال کی عمر تک اور لڑکی نو سال کی عمر تک والدہ کی پرورش میں رہیں گے، لڑکے کی سات سال اور لڑکی کی نو سال کی عمر کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہے، جس کا حق ان کے عصبات کو ہوگا، یعنی ان کے دادا کو، وہ نہ ہوں تو  بھائی کو، وہ نہ ہو تو  چچا  وغیرہ کو حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج3، ص566، سعيد)

و فیہ :

 (قوله: وبأن غير الأب إلخ) يوهم أن غير الأب له السفر به أيضا إذا كان عنده، ولم أر من ذكره، بل قال القهستاني فلا يخرجه الأب إلا أن يستغني، ولا غيره ممن يستحق الحضانة نظرا للصغير. اهـ.

والذي أفتى به الرملي في الخيرية هو أنه إذا تزوجت الأم بأجنبي وللصغير ابن عم له طلبه. قال في المنهاج للعقيلي: وإن لم يكن للصبي أب وانقضت الحضانة فمن سواه من العصبة أولى الأقرب فالأقرب، غير أن الأنثى لا تدفع إلى غير المحرم، ومثله في الخلاصة والتتارخانية وغيرهما. 

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج3، ص571، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں