ہمارے والد صاحب کا انتقال 35 سال قبل ہوا ہے، ہم کل سات بھائی ہیں، والد صاحب کی زمین ہم سات بھائیوں نے آپس میں تقسیم کی ہے، ہر بھائی اپنے اپنے حصے کا مالک ہے، ہماری زمین (جو کل بھائیوں کی ہے) میں دو نہر ہیں ، جن سے ہماری ضرورت پوری ہوتی ہے، ایک نہر ایک بھائی کی زمین پر سے گزرتی ہے، پھر ہماری زمینوں کے پاس سے آکر ہم اپنی زمینیں اس سے سیراب کرتے ہیں ، اب اس بھائی کا کہنا ہے کہ میں یہ نہر خراب کردوں گا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ایک نہر سے اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکتے ، دو نہروں کی ضرورت ہے ، دو نہر ہوں تو ضرورت پوری ہوگی، اس بھائی کی یہ ضد ہے کہ میں ایک نہر کو خراب کردوں گا، اب آپ رہ نمائی فرمائیں کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ آیا ہمارے اس بھائی کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس نہر کو خراب کردے جس سے ہم سب بھائیوں کی ضرورت وابستہ ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل اوراس کے بھائیوں کے درمیان تقسیم شرعی ہوئی ہے، اور تقسیم کے وقت مذکورہ دونوں نہر جاری تھیں، تو ایسی صورت میں سائل کے بھائی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ سائل اور اس کے باقی بھائیوں کی زمین سیراب کرنے والی نہر خراب کردے، اگر چہ مذکورہ نہر اس کی زمین میں گزر تی ہے، نہر خراب کرنے کی صورت میں یہ بھائی سخت گناہ گار ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإذا كان لرجل أرض ولآخر فيها نهر وأراد رب الأرض أن لا يجري النهر في أرضه لم يكن ذلك ويتركه على حاله."
(حاشية ابن عابدين، كتاب إحياء الموات، فصل: الشرب، 6/ 443، ط: سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"رجل له أرض وللآخر نهر يجري فيها فأراد رب الأرض أن يمنع النهر أن يجري في أرضه لم يكن له ذلك ويترك على حاله؛ لأن موضع النهر في يد رب النهر وعند الاختلاف القول قوله في أنه ملكه فإذا لم يكن في يده ولم يكن جاريا فيها فعليه البينة أن هذا النهر له، وأن مجراه في هذه الأرض يسوقه إلى أرض له ليسقيها فيقضي له لإثباته بالحجة."
(البحر الرائق، كتاب إحياء الموات، مسائل الشرب، لا كراء على أهل الشفعة، 8/ 244، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتح القدیر میں ہے:
"وإذا كان نهر لرجل يجري في أرض غيره فأراد صاحب الأرض أن لا يجري النهر في أرضه ترك على حاله."
(كتاب إحياء الموات، فصل في الدعوى والاختلاف والتصرف فيه، 10/ 84، ط: دار الفكر)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"إذا كانت الأرض بين قوم ميراثا اقتسموها بغير قضاء فأصاب كل إنسان منهم قراح على حدة فله شربه وطريقه ومسيل مائه وكل حق لها والصحيح أنهما لا يدخلان كذا في المحيط."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب القسمة، الباب الرابع فيما يدخل تحت القسمة من غير ذكر، 5/ 215، ط: دار الفكر)
المحیط البرہانی میں ہے:
"إذا كانت الأرض بين قوم ميراثاً اقتسموها بغير قضاء، فأصاب كل إنسان منهم فراح على حده، فله شربه وطريقه ومسيل مائه وكل حق لها.
والصحيح: أنهما لا يدخلان، ألا ترى أنهما لا يدخلان في البيع من غير ذكر الحقوق فكذا في القسمة؛ لأنها بمعنى البيع إلا أن فرق ما بين البيع والقسمة أن البيع جائز على كل حال، والقسمة جائزة إن أمكنه أن يجعل لأرضه شرباً وطريقاً من موضع آخر، وإن لم يمكنه إن علم وقت القسمة أن لا طريق ولا شرب له، فكذا القسمة جائزة، وإن لم يعلم فالقسمة باطلة؛ لأن البيع وضع لتمليك ما عقد عليه البيع، وقد حصل هذا المعنى على كل حال."
(المحيط البرهاني، كتاب القسمة، الفصل الرابع: فيما يدخل تحت القسمة من غير ذكر، 7/ 353، ط: دار الكتب العلمية)
درر الحکام میں ہے:
"إذا أخذ المال المأجور وهو عالم بأنه مال الغير أثم واستحق عذاب النار؛ لأن الغصب حرام وحرمته ثابتة بالآية الجليلة والحديث الشريف قال الله تعالى: {لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} [النساء: 29] "وقال صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبرا من الأرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين"، (الهداية والعيني، والقهستاني) وقد قال عليه الصلاة والسلام في حجة الوداع يوم النحر في مكة المكرمة: "فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم. ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم أللهم اشهد." الحديث (الطحطاوي)."
(كتاب الغصب، الفصل الأول في بيان أحكام الغصب وأركانه، (2/ 512)، ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102533
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن