بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے ملک کے باشندوں کی طرف سے وہاں کے ایام النحر گزرنے کے بعد قربانی کرنا


سوال

ایک صاحب پاکستان میں قربانی کرتے ہیں اور ان کے بہن اور بھائی کے بھی اس میں حصّہ ہوتے ہیں جو ملک سے باہر رہایش پزیر ھیں، ان کے اور یہاں کے عید میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے ،اگر ان کی قربانی کسی وجہ سے پاکستان کے حساب سے تیسرے دن ہو تو باہر ملک کا چوتھا دن ہوا ،کیا ایسی صورت میں ان کے بھائی اور بہن کی قربانی ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب

اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ لہذا جب بیرونِ ملک  جہاں مذکورہ شخص کے بھائی اور بہن رہتے ہیں جن کی طرف سے قربانی کی جارہی تھی ان کے ہاں 13 ذی الحجہ ہو، یعنی ایامِ نحر  (قربانی کے دن) ختم ہوچکے ہوں؛ تو ان کی قربانی نہ ہوگی ۔
البتہ  باقی شرکاء  کی قربانی ہو جائے گی، ان کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؛ جبکہ سب شرکاء کی نیت قربت کی ہی ہو۔ اگر کسی کی نیت قربانی کے بجائے گوشت کی ہو، یا کسی ایک کا مال حرام ہو، تو دیگر شرکاء کی قربانی متاثر ہوتی ہے۔

جیساکہ ’’شرح العنایۃ علٰی ہامش فتح القدیر‘‘ میں ہے:

’’فلایجوز في لیلة النحر ألبتة لوقوعها قبل وقتها لا في لیلة التشریق المحض لخروجه‘‘.  (الأضحیة، ج:۸، ص:۴۳۲، ط:رشیدیه)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 74):

"وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لايذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.

(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولايدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغةً، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لاتتبع النهار المستقبل، فلاتدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم".


فتوی نمبر : 144111200759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں