بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرا نکاح چھپ کر کرنا


سوال

میرے  آفس میں ایک لڑکی کام کرتی ہے اور وہ مجھے پسند ہے اور وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے، میں شادی شدہ ہوں، میرے تین بچے بھی ہیں اور بیوی بھی ہے، ماشاء اللہ سے ایک فیملی ہے، لیکن میں اس لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس کے والدین اور بہن ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوں میں شادی شدہ ہوں، میں اللہ  کے حکم سے  نکاح کے بعد  خرچ وغیرہ اور اس لڑکی کا دیگر انتظام کرسکتا ہوں،  میں نکاح چاہتا ہوں، ہم کبھی ساتھ بھی چلے جاتے ہیں گھومنے، لیکن وہ اللہ کی ناراضگی ہے، اب میں کیا کروں؟ نیز میں اپنے گھر میں بھی اپنے والدین اور بیوی کو نہیں بتاسکتا کہ میں دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہوں ؛ اس لیے کہ وہ اس کو قبول نہیں کرے گی اور بچوں کو مجھ سے دور کردے گی اور خود بھی اپنی امی کے گھر چلے جائے گی۔

اب میں پریشان ہوں کہ کیا کروں؟  اگر ہم کہیں جاکر نکاح کرلیں خود سے  تو اس کے ولی کا مسئلہ ہے، آپ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

 شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، البتہ ان کو اپنی تمام بیویوں کے درمیان ان کے لباس، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی کے حوالہ سے برابری کرنے کا پابند کیا ہے، اور بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے اور نا انصاف شوہروں کے حوالہ سے سخت وعیدیں سنائی ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ [النساء:3]

ترجمہ: اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو، دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔ ( بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ ان کے درمیان برابری اور انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں.

اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل". ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

 واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے  نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث. (سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

مذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر  اگر آپ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں تو  آپ کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے،  پہلی بیوی سے اجازت لیناضروری  تو نہیں ہے،  تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لے لیں تو  بہتر ہے، تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں  اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔

لیکن دوسری شادی خفیہ طور پر چھپ کر کرنا   چوں کہ مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا (جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا، شوہر کی جانب سے پہلی بیوی کی حق تلفی کرنا، اسی طرح لڑکی والدین کو اعتماد میں لیے بغیر چھپ کر نکاح کرنا بھی معیوب ہے۔

لہذا لڑکی کے والدین اور اپنے گھر والوں کو  راضی کرنے کی کوشش کریں؛ تاکہ نکاح کا مقصد حاصل ہوسکے، اور  نکاح چھپ کر کرنے کے بجائے علی الاعلان کریں۔ اور جب تک نکاح نہ ہوجائے مذکورہ لڑکی سے  تنہائی میں ملاقات، ساتھ گھومنے اور بے تکلف بات چیت سے سختی سے اجتناب کریں۔

اس کے لیے اللہ سے دعا مانگتے رہیں کہ جو آپ کے حق میں بہتر ہو، اس کے اسباب مہیا ہوجائیں اور استخارہ بھی کرتے رہیں، اس کا طریقہ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیجیے:

استخارہ کا طریقہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں