بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دشمن کی قید میں شدتِ تکلیف کے اندیشہ سے خودکشی کرنے کا حکم


سوال

 حالت جنگ میں جب دشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد تکالیف پہنچنے کا سخت اندیشہ ہو تو  کیا اس صورت میں  اپنے بچاؤ کے لیے خودکشی کی جاسکتی ہے ؟تاکہ دشمن کی طرف سے ملنے والی ایذاؤں سے محفوظ رہ سکیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر محض دشمن کی ایذاء کا اندیشہ ہےتو  خود کشی کرنا جائز نہیں ہے ،اس لیے کہ مسلمان کو صرف اسلام کے لیے اپنی جان  خطرہ میں ڈالنے کی اجازت ہے، ایک غزوہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے بارے میں جو اسلام کا دعوی کرتا تھا فرمایا کہ یہ جہنمی ہے ،جب جنگ شروع ہوئی اس شخص نے بھر پور طریقہ سے کفار سے مقابلہ کیا اور مر گیا ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ،حالاں کہ وہ دشمن کے مقابلہ میں لڑا یہاں تک  کہ وہ مر گیا ،اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم میں گیا ،راوی(حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قریب تھا کہ بعض صحابہ کو شک ہو جائے، اتنے میں اطلاع ملی کہ وہ مرا نہیں ہے  بلکہ سخت زخمی ہو گیاہے،پس جب رات ہوئی  اور زخموں کی تاب نہیں لاسکا تو اس نے  اپنے آپ کو مار ڈالا ،پس جب اس کی اطلاع اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اکبر میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ،اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اعلان کرو کہ جنت میں صرف مومن ہی جائے گا ،اور اللہ تعالی اس  دین کی مدد فاجر سے بھی کرواتے ہیں ۔

پس   فاجر، جہنمی ہونے کے لیے صرف اللہ کے نبی کی بات ہی کافی تھی ،لیکن  اطمینان قلب بھی ضروری تھا ،اور نبی کے قول کی عملی تصدیق بھی ضروری تھی ،اس لیے  اختتام پر ایسا فعل(زخموں کی تاب نہ لانے کی  وجہ سے اپنے آپ کو مار ڈالنا) صادر فرمایا جس سے صحابہ کا دل اس شخص کے کفر پر مطمئن ہوااور نبی کے قول کی تصدیق بھی ہو گئی ۔اسی طرح اگر دشمن مسلمانوں کی کشتی پر آگ پھینک دیں ،اور کشتی میں جل کر مرنا یقینی ہواور  پانی میں چھلانگ لگانے سے ڈوبنا یقینی ہو تو اس وقت فقہاء امت نے پانی میں چھلانگ لگانے سے منع فرمایا ،اس لیے کہ جلنا دشمن کے فعل سے ہوگا اور ڈوبنا اپنے فعل سے ،اس لیے مسلمان قیدی  دشمن کی تکلیف پر صبر کرے، اللہ صابرین کے ساتھ ہے،خود کشی نہ کرے ۔

البتہ اگر قیدی کو یہ اندیشہ ہے کہ مجھےتکلیف دے کر یا نشہ وغیرہ کی دوائی دے کر مجاہدین کے خفیہ ٹھکانے ،اسلحہ کے ذخائر ،منصوبے ،دیگر مجاہدین کے بارے میں صحیح صحیح معلومات حاصل  کر لیں گے تو اس وقت خود کو مارنا جائز ہوگا ،وگرنہ   رازوں کے افشاء سے عظیم فساد برپا ہوگا،ہزاروں مجاہدین کا نقصان ہو جائے گا ،برسوں کی محنت پر پانی بھر جائے گا ، تو اس صورت میں اہون البلیتین(یعنی دو نقصان میں جو ہلکا اور کم ہے )کا قاعدہ  اختیار کیا جائے گا اس لیے کہ  ایک مجاہد کا نقصان ہزاروں مجاہدین کے نقصان سے آسان ہے۔

البدایہ و النہایہ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ 587ہجری میں انگریزوں نے "عکا" نامی شہر کا محاصرہ کر لیا تھا ،اور مسلمانوں کو اس وقت شدید تکالیف کا سامنا تھا ،اس دوران ایک کشتی جس میں مسلمانوں کے چھ سو اعلی جنگجو سوار تھے ،اسلحہ ،کھانے کے ذخائربھی  تھے اپنی کشتیوں سے محاصرہ کر لیا ،جب ان چھ سو مجاہدین کو اپنی پسپائی اور دشمنوں کے ہاتھوں قید ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے اہون البلیتین  پر عمل کرتے ہوئے  کشتیوں میں سوراخ اور شگاف کر کے اپنئ جانیں خدا کے لیے گنوا دیں تاکہ نہ ہم قیدی بنائے جائیں ،نہ اسلحہ کے ذخائر،کھانے پینے کی اشیاء  فرنگیوں کے ہاتھ آئے ، مسلمان اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے لیکن اللہ کی غیبی مدد آئی اور مسلمان دشمن کے ٹینک کو جلانے میں کامیاب ہوگئے ،اس طرح دشمن کے شر سے مسلمان محفوظ ہو گئے۔پس مؤلف ابن کثیر رحمہ اللہ ان چھ سو جنگجوؤں کے فعل کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ مجاہدین کے لیے رحمت کی دعا بھی فرمائی ۔ 

بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، ح وحدثني محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لرجل ممن يدعي الإسلام: «هذا من أهل النار»، فلما حضر القتال قاتل الرجل قتالا شديدا فأصابته جراحة، فقيل: يا رسول الله، الذي قلت له إنه من أهل النار، فإنه قد قاتل اليوم قتالا شديدا وقد مات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إلى النار»، قال: فكاد بعض الناس أن يرتاب، فبينما هم على ذلك، إذ قيل: إنه لم يمت، ولكن به جراحا شديدا، فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح فقتل نفسه، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: «الله أكبر، أشهد أني عبد الله ورسوله»، ثم أمر بلالا فنادى بالناس: إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر۔"

(کتاب الجہاد و السیر،باب ان اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر، ج:4،ص:72،ط:دار طوق النجاۃ)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، التقى هو والمشركون، فاقتتلوا، فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره، ومال الآخرون إلى عسكرهم، وفي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقال: ما أجزأ منا اليوم أحد كما أجزأ فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما إنه من أهل النار»، فقال رجل من القوم: أنا صاحبه، قال: فخرج معه كلما وقف وقف معه، وإذا أسرع أسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالأرض، وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل على سيفه، فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: أشهد أنك رسول الله، قال: «وما ذاك؟» قال: الرجل الذي ذكرت آنفا أنه من أهل النار، فأعظم الناس ذلك، فقلت: أنا لكم به، فخرجت في طلبه، ثم جرح جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه في الأرض وذبابه بين ثدييه ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: إن الرجل ليعمل عمل أهل الجنة، فيما يبدو للناس، وهو من أهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار، فيما يبدو للناس، وهو من أهل الجنة۔"

(کتاب الجہاد و السیر،باب لا یقول فلان شہید،ج:4،ص:37،ط:دار طوق النجاۃ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وفيه: صدق الخبر عما يكون وخروجه على ما أخبر به الشارع، وهو من علامات النبوة. وفيه: زيادة تطمين في قلوب المؤمنين، ألا ترى أن الرجل حين رأى أنه قتل نفسه، قال: حين أخبر به الرسول، صلى الله عليه وسلم: أشهد أنك لرسول الله. وفيه: أن الإعتبار بالخواتيم وبالنيات.وفيه: أن الله يؤيد دينه بالرجل الفاجر."

(کتاب الجہاد و السیر،باب ان اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر،ج:14،ص؛181،ط:دار احیاء التراث العربی)

شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:

"مسألة: [كيفية تصرف الذين في السفينة إذا رماها العدوُّ بالنار]

قال: (ومن كان من المسلمين في السفينة في البحر، فرماها العدو بالنار، فعملت فيها: فإن المسلم الذي فيها بالخيار: إن شاء صبر على النار حتى تحرقه، وإن شاء ألقى نفسه في الماء وإن كان يعلم أنه يموت فيه غرقًا. هكذا كان أبو حنيفة يقول.قال: وقال محمد: إن أيقن بالهلاك في الماء أو النار، لم يلق نفسه في الماء؛ لأنه يصير قاتلاً لنفسه بفعله، وهلاكه في السفينة ليس من فعله).قال أحمد: وذكر محمد جواب هذه المسألة في السير الكبير عن أبي حنيفة مجملاً، لم يفصل فيه وجوهها، فقال: قال أبو حنيفة: إذا أحرق المشركون سفينة من سفن المسلمين، فإن صبر المسلم على النار حتى تحرقه كان في سعة، وإن سقط في البحر فغرق كان في سعة، ولم يفصل وجوه المسألة في غلبة الظن في الرجاء، أو خوف الهلاك.وذكر محمد عن نفسه وجوه المسألة على أربعة أنحاء:إما أن يرجو النجاة في الماء، ولا يرجوها في السفينة: فيطرح نفسه إلى الماء.أو يرجوها في البقاء في السفينة، ولا يرجوها في إلقاء نفسه في الماء: فيثبت في السفينة، لا يسعه غير ذلك.أو يعتدل الرجاء والخوف في الثبات في السفينة أو إلقاء نفسه في الماء: فهو كما قال أبو حنيفة، هو بالخيار: إن شاء ثبت، وإن شاء ألقى نفسه في الماء.قال: وإن أيقن بالهلاك فيهما جميعًا، ثبت في السفينة، ولم يلق نفسه في الماء؛ لأن التغريق يكون من فعله، والإحراق من فعل غيره."

(کتاب السیر و الجہاد، ج:7،ص:204،ط:دار السراج)

البدایہ و النہایہ میں ہے:

"‌لما ‌كان ‌شهر جمادى الأولى اشتد حصار الفرنج - لعنهم الله - لعكا وتمالئوا عليها من كل فج عميق وقدم عليهم ملك الإنكلتير في جم غفيروجمع كثير في خمس وعشرين قطعة مشحونة بالمقاتلة وابتلي أهل الثغر منه ببلاء لا يشبه ما قبله فعند ذلك حركت الكوسات في البلد، وكانت علامة ما بينهم وبين السلطان فحرك السلطان كوساته واقترب من البلد وتحول إلى قريب منهم ليشغلهم عن البلد وقد أحاطوا به من كل مكان ونصبوا عليه سبعة مجانيق وهى تضرب في البلد ليلا ونهارا ولا سيما على برج عين البقر حتى أثرت به أثرا بينا، وشرعوا في ردم الخندق بما أمكنهم من دواب ميتة ومن قتل منهم ومن مات أيضا، وقابلهم أهل البلد ينقلون ما ألقوه فيه إلى البحر وظفر ملك الإنكلتير ببطسة عظيمة للمسلمين قد أقبلت من بيروت مشحونة بالأمتعة والأسلحة فأخذها وكان واقفا في البحر في أربعين مركبا لا يترك شيئا يصل إلى البلد بالكلية - لعنه الله - وكان فيها ستمائة من المقاتلة الصناديد الأبطال فهلكوا عن آخرهم رحمهم الله أجمعين، فإنه لما أحيط بهم من الجوانب كلها وتحققوا إما الغرق أو القتل خرقوا من جوانبها كلها فغرقت ولم يقدر الفرنج على أخذ شىء منها لا من الميرة ولا من الأسلحة وحزن المسلمون على هذا المصاب حزنا عظيما فإنا لله وإنا إليه راجعون ولكن جبر الله سبحانه هذا البلاء بأن أحرق المسلمون في هذا اليوم للفرنج دبابة كانت أربع طبقات ; الأولى من خشب والثانية من رصاص والثالثة من حديد والرابعة من نحاس وهي مشرفة على السور والمقاتلة فيها وقد قلق أهل البلد منها بحيث حدثتهم أنفسهم من خوفهم من شرها بأن يطلبوا الأمان من الفرنج، ويسلموا البلد ففرج الله وأمكنهم من حريقها واتفق ذلك في هذا اليوم الذي غرقت فيه البطسة المذكورة"

(ج:16،ص:629،ط:دار عالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں