بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لینا ضروری نہیں


سوال

 میں شادی شدہ ہوں،  میری شادی کو 12 سال ہو چکےہیں اور میرے 4 بچےہیں،  میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں جس  کے لیے میں نے تقریبًا  4 سال بیوی کو منایا اور  بالآخر  اس نے مجھے اجازت دے دی، جب ایک جگہ رشتہ ہونے والا تھا تو میری بیوی کارویہ بدلنے لگااور عجیب عجیب باتیں کرنا شروع کر دیا کہ سب ختم ہوجائے گا، سب برباد  ہوجائے گا اور رونادھونا پھرکھانانہ کھانا اور اس قسم کی کافی حرکتیں کرتی۔  آخر ان حرکتوں اور باتوں سے تنگ آ کے میں نے وہ رشتہ آگے نہیں بڑھایا اور دوسری شادی نہیں کی ، تب سے میری بیوی ٹھیک ہے۔

  میں اب بھی دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں،  لیکن اب ارادہ یہ ہے کہ بیوی سے چھپ کے کروں گا،  چھپ کے کرنے میں یہ معاملہ ہے کہ میں کوئی دن یا رات دوسری بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکوں گا اور انصاف پہ قائم نہیں رہ پاؤں گا، جب کہ پہلےجب میں بیوی کی اجازت سے کر رہا تھا تب میں دونوں بیویوں کے بیچ میں راتیں بانٹ رہا تھا اور بہت حد تک انصاف پہ قائم تھا، آج کل کے حالات میں کافی خواتین مالی و جسمانی اور معاشرتی ضروریات کی وجہ سے اس بات پہ بھی آمادہ ہیں کہ بس کوئی ان سے نکاح کر لے اور ان کو عزت سے رکھ سکے اور اس کے بدلے میرے کہےبغیر ہی وہ اپنے سارےحقوق معاف کرنے کی پیشکش خود کرتی ہیں،  اس کے بدلے ان کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کو رہنے کی جگہ اور ان کا اور ان کہ بچوں کا پورا خرچہ صحیح طریقے سے اٹھایا جاۓ جس کے  لیے میں تیار ہوں، یہاں پہ خاتون کے گھر والوں کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ لڑکی کا نکاح ہو چکا ہے،  لیکن یہ بات صرف میرے گھروالوں کو نہیں پتا (اپنی بیوی کی وجہ سے )۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں درجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1-   اس طرح نکاح کرنا کیسا ہے؟

2-  خاتون کا از خود  اپنےحقوق سے دستبردار ہوناکیسا ہے؟

3-  کیابیوہ اور طلاق یافتہ عورت کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے؟

راہ نمائی فرمائیں کہ یہ نکاح کیساہے؟ اور خاتون کا از خود  اپنےحقوق سے دستبردار ہوناکیسا ہے؟ اور یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ بیوہ اور طلاق والی خاتون کے  لیے ولی کی اجازت ضروری ہے نکاح کے  لیے؟

جواب

1-  شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو چار تک نکاح کی اجازت دی ہے، البتہ ان کو اپنی تمام بیویوں کے درمیان ان کے لباس، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی کے حوالہ سے برابری کرنے کا پابند کیا ہے، اور بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے اور نا انصاف شوہروں کے حوالہ سے سخت وعیدیں سنائی ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ [النساء:3]

ترجمہ: اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو، دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔ (بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب وہ ان کے درمیان برابری اور انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی طاقت اور مالی استطاعت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی طاقت یا مالی استطاعت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

تاہم دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا لازم نہیں، البتہ بہتر ہے؛ تاکہ آئندہ کی زندگی میں سکون اور اطمینان ملے، اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔

2- اگر کوئی عورت اپنی باری وغیرہ سےخوشی اور رضامندی سے دستبردارہونا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔

3-  اگر کوئی عاقلہ بالغہ خاتون جو کہ بیوہ اور مطلقہ بھی ہو، اور وہ اپنا نکاح از خود کر لے تو نکاح  ہو جائے گا، ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔  البتہ اگر نکاح غیر کفو میں ہو تو اولاد ہونے سے پہلے ولی کو اعتراض کا حق ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قوله: نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي "لأنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة بالغة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج، وإنما يطالب الولي بالتزويج كي لا تنسب إلى الوقاحة ولذا كان المستحب في حقها تفويض الأمر إليه والأصل هنا أن كل من يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه يجوز نكاحه على نفسه وكل من لا يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه لا يجوز نكاحه على نفسه، ويدل عليه قوله تعالى: {حَتَّى تَنْكِحَ} [البقرة: 230] أضاف النكاح إليها ومن السنة حديث مسلم "الأيم أحق بنفسها من وليها" وهي من لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا، فأفاد أن فيه حقين حقه وهو مباشرته عقد النكاح برضاها، وقد جعلها أحق منه ولن تكون أحق إلا إذا زوجت نفسها بغير رضاه".

(کتاب النکاح، ج: 7، ص: 310، ط: دار احياء التراث العربي)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(والولاية تنفيذ القول على الغير) تثبت بأربع: قرابة، وملك، وولاء، وإمامة (شاء أو أبى) وهي هنا نوعان: ولاية ندب على المكلفة ولو بكرا وولاية إجبار على الصغيرة ولو ثيبا ومعتوهة ومرقوقة كما أفاده بقوله: (وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".

(کتاب النکاح، ج: ۳، ص: ۵۵، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں