بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللّٰهم صل علی محمد النبي الرحمة کا ثبوت


سوال

اللّٰهم صل علی محمد النبي الرحمةیہ درود شریف کہاں سے ثابت ہے؟

جواب

سوال میں اگر ثبوت سے آپ کی مراد بعینہ مذکورہ کلماتِ درود کا اسی ترتیب پر  حدیث مبارکہ میں وراد ہونا ہے ، تو پھر  یہ کلمات اس ترتیب پر احادیث مبارکہ میں ہمیں کہیں نہیں مل سکے ، البتہ اگر ثبوت سےآپ کی مراد یہ ہے کہ  کلمات درود’’ اللّٰهم صل علی محمد‘‘ میں’’نبي الرحمة‘‘ کی صفت  لگا کر درود شریف کو مکمل کیاجانا کیسا ہے ؟ تو  واضح رہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود کو نبی الرحمۃ قرار دیا ہےجيسا كه  كئي كتبِ احادیث  میں وارد ہے، مختصرا ’’مسند احمد‘‘ سے حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں : 

"عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سِكَّةٍ مِنْ سِكَكِ الْمَدِينَةِ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَالْحَاشِرُ، وَالْمُقَفَّى،وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ. "

"ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ  میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ کی ایک گلی میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں محمد ہوں ، احمد ہوں ، حاشر  ہوں، مقفی ،اور نبی الرحمۃ ہوں۔"

(مسند أحمد، (38/ 434)، برقم (23443)، ط/مؤسسة الرسالة)

نیز مختلف کتبِ احادیث  میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پریشان حال بیمار کو دعا ئیہ کلمات سکھلائے تو اس میں اپنے نامِ مبارک کے ساتھ ’’نبی الرحمۃ‘‘کی صفت مبارکہ لگائی ، مختصرا ’’مسند احمد‘‘ سے حوالہ ملاحظہ فرمائیے:  

"عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ: إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ لَكَ، وَإِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذَاكَ، فَهُوَ خَيْرٌ. فَقَالَ: ادْعُهُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ، فَتَقْضِي لِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ." 

"ترجمہ:حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ: اللہ سے دعاء کر دیجئے کہ وہ مجھے عافیت عطاء فرمائے (میری آنکھوں کی بینائی لوٹا دے)،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم چاہو تو میں تمہارے حق میں دعاء کر دوں، اور چاہو تو اسے آخرت کے لئے مؤخر کر دوں ،جوکہ  تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے، اس نے کہا کہ: دعاء کر دیجئے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ اچھی طرح  وضو کرے،اور دو رکعات نماز پڑھے، اور پھر اس ان کلمات کے ساتھ دعا کے:’’   اے اللہ! میں آپ سے آپ کے نبی محمد  جو کہ نبی الرحمۃ ہیں کے وسیلے سے آپ سے سوال کرتا ہوں، اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو لے کر اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں اور اپنی یہ ضرورت پیش کرتا ہوں، تاکہ آپ میری یہ ضرورت پوری کردیں، اے اللہ! میرے حق میں ان کی سفارش کو قبول فرما‘‘ ۔

(مسند أحمد، (28/ 478)، برقم (17240)، ط/مؤسسة الرسالة)

معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلا م پر درود پڑھتے ہوئے  آپ کے نامِ نامی کے ساتھ  ’’نبی الرحمۃ‘‘کی صفت لگاكر درود شريف پڑھنا درست ہے،اور اس طرح سے درود پڑھنے ميں کوئی حرج  نہیں  ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408100985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں