بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

درود تنجینا کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟


سوال

درود تنجینا کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟

جواب

درودِ تنجینا ان درودوں میں سے نہیں ہے جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، بلکہ یہ بزرگوں کے مجربات میں سے ہے،  اور اسے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے علامہ فاکہانی رحمہ اللہ کی کتاب "الفجر المنیر" کے حوالے سے نقل کیا ہے، اور واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ موسی الضریر رحمہ اللہ ایک مرتبہ سمندر میں سفر کررہے تھے کہ طوفان آیا جس کا نام "اقلابیه"  ہے، اور  عام طور پر  اس طوفان میں پھنسنے والے بچتے نہیں ہیں، موسی الضریر نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ علیہ الصلاۃ  و السلام  نے فرمایا کہ کشتی والوں سے کہو کہ وہ یہ درود  پڑھیں،  شیخ جاگے اور لوگوں کو اس درود کے پڑھنے کا کہا تو  تین سو بار ہی  پڑھا تھا کہ اللہ تعالی نے اس مصیبت کو دور کردیا اور اس طوفان سے نجات ملی ۔

مجد لغوی نے اپنی سند سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حسن بن علی اسوائی کا قول نقل کیا ہے کہ جو آدمی اس درود کو کسی مصیبت یا مسئلہ میں ایک ہزار بار پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کو دور کردیں گے اور  اس کے کام کو پورا کردیں گے،  یہ تفصیل علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "القول البدیع في الصلاة على الحبیب الشفیع" میں نقل کی ہے۔   درود  کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں:

"اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ صَلَاةً تُنْجِیْنَا بِهَا مِنْ جَمِيْعِ الأَهْوَالِ وَالآفَاتِ وَتَقضِيْ لَنَا بِهَا جَمِيْعَ الحَاجَاتِ وَتُطَهِّرُنَا بِهَا مِنْ جَمِيْعِ السَّيِّئَاتِ وَتَرْفَعُنَا بِهَا عِنْدَكَ أَعلَى الدَّرَجَاتِ وَتُبَلِّغُنَا بِهَا أَقْصَى الغَاياَتِ مِن جَمِيعِ الخَيرَاتِ فِي الحَيَاةِ وَبَعدَ المَمَاتِ".

(القول البدیع في الصلاة علی الحبیب الشفیع: ۴۳۵، دارالیسر)

"ترجمہ: اے پروردگار  آپ درود نازل فرمائیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا درود جس کی برکت سے آپ ہمیں ہر مصیبت اور آفت  سے  نجات عطا فرمائیں، اور اس کے ذریعے آپ ہماری تمام حاجات پوری کریں، اور ہمیں تمام گناہوں سے پاک کریں، اور اپنے ہاں ہمیں اعلی درجات تک بلندی عطا کریں، اور تمام خیروں کی انتہا تک ہمیں پہنچائیں زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ "

بہرحال یہ درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرسکتے ہیں، البتہ بزرگوں کے مجربات میں سے ہے، اور کوئی شرکیہ کلمہ یا خلافِ شرع جملہ بھی نہیں، اس لیے اس پڑھ سکتے ہیں، اور  چوں کہ مجربات میں سے ہے، اس لیے ہر بزرگ کا اس کے بارے میں الگ الگ تجربہ بھی ہوسکتا ہے، اب کسی خاص بزرگ کا خاص وظیفہ ہو تو ان کی اجازت سے پڑھنا زیادہ فائدہ مند ہوگا اور اگر عمومی عمل ہے تو  اجازت لیے بغیر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ 

الفجر المنیر في صلوۃ علي البشیر النذیر میں ہے:

"أخبرني الشيخ الصالح موسى الضرير أنه ركب في لمركب في البحر الملح قال وقد قدمت علينا ريح تسمى الاقلابية قل من ينجو منها من الغرق فنمت فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول لي قل لأهل المركب أن يقولوا ألف مرة اللهم صل على محمد صلاة تنجينا بها من جميع الأهوال والآفات ‌وتقضي ‌لنا ‌بها جميع الحاجات وتطهرنا بها من جميع السيئات وترفعنا بها عندك أعلى الدرجات وتبلغنا بها أقصى الغايات من جميع الخيرات في الحياة وبعد الممات قال فاستيقظت وأخبرت أهل المركب الرؤيا فصلينا نحو ثلاث مائة مرة ففرج الله عنا وأسكن عنا ذلك الريح ببركة الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم."

(الباب الثالث  فی کیفیة الصلوۃ الخ ،ص:21، ط:دار الکتب العملیة)

القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع"میں ہے:

"وساقها المجد اللغوي بإسناده مثل سواء ونقل عقبها عن الحسن بن علي الأسواني قال ومن قالها في كل مهم ونازلة وبلية ألف مرة فرج الله عنه وأدرك مأموله."

(الباب الخامس فی الصلوۃ علیة فی اوقات المخصوصة، ص: 220 ،ط: دارالریان للتراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں