بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دنیاوی غرض سے علم دین کا حصول


سوال

میں 8 سال کا عالم کا کورس کر رہا ہوں،  والد صاحب نے میرا ذہن مدرسے میں جانے کا بنایا تھا، میں بھی چاہتا تھا کہ عالم بن جاؤں، میری نیت یہ ہے کہ عالم بننے کے بعد اسکول،کالج،یونیورسٹی، مدرسے وغیرہ میں استاد اور کسی مسجد میں امام لگ جاؤں اور پیسے کماؤں۔   میں نے اپنے استاد سے سنا ہے کہ جو دین کا علم حاصل کرے دنیاوی عرض کے  لیے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا اگر میری نیت صحیح نہیں ہے تو میں اپنی نیت کیسے صحیح کروں درجہ ثالثہ میں پہنچ گیا ہوں والد صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں عالم بن جاؤں، اب کیا میں مدرسہ چھوڑ دوں؟

جواب

آپ کے استاذ صاحب نے صحیح بتایا ہے، آپ اپنے والد صاحب کی خواہش کے مطابق علمِ دین  کے حصول میں لگے  رہیں، البتہ نیت درست کرلیں جو کسی بھی کام کے  لیے ضروری بھی  ہےاور  زاویہ  نگاہ کو بھی بدل دیتی ہے، اس  لیے اللہ کی رضا اور  خدمتِ دین کا جذبہ ہو تو سارے کام درست بھی ہو جائیں گے اور  دنیا کے اعتبار سے دیگر کامیابیاں بھی حاصل ہوجائیں گی۔ لیکن اگر شروع سے ہی نیت درست نہ ہو تو سارے کام خراب ہوجاتے ہیں۔

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من تعلم علما مما يبتغى به وجه الله، لايعلمه إلا ليصيب به عرضًا من الدنيا، لم يجد عرف الجنة يوم القيامة" يعني: ريحها."

(سنن ابن ماجة،ابواب السنة،باب الانتفاع بالعلم والعمل به، رقم الحديث: 252)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں