بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دنیا میں بپا ہونے والے زلزلوں کی بابت مسلمان کا کیا اعتقاد ہونا چاہیے؟


سوال

 حالیہ ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد بہت سے آرٹیکل اور ویڈیوز میں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ انجینیرڈ (بنایا ہوا، یا ٹیکنالوجی کی مدد) زلزلہ ہے، ریڈیو فیکونسی یا برقی لہروں کو بڑے پیمانے پر کنٹرول کرکے ایک سمت موڑا جاتا ہے، جس سے سیلاب اور زلزلے آسکتے ہیں،  جبکہ قرآن و حدیث میں اسے اللہ کا حکم اور گناہوں کی کثرت بتائی جاتی ہے اور ٹیکنالوجی کی موجودہ جدت میں بھی بعض مرتبہ کچھ حیران کن نظر آتا ہے، ایک مسلمان کو عقیدے کے لحاظ سے اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنی چاہیے عام لوگوں کو کس طرح دلیل سے مطمئن کیا جا سکتا ہے، ہارپ نامی ٹیکنالوجی کو آج کل اس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جواب

دنیائے انسانیت پر جو مصائب وآلام آتے ہیں، اصولاً ان کی تین اقسام ہیں: (الف) غیراختیاری مصائب (ب) اختیاری مصائب(ج) وہ مصائب جو شرعی اعمال وافعال کی اعلانیہ خلاف ورزی پر اللہ تعالی کی طرف سے بطور پاداشِ عمل ڈالے جاتے ہیں۔
(الف)  غیراختیاری مصائب:

جو انسان کے ارادہ واختیار کے بغیر اس پر طاری ہوتے ہیں، خواہ انسان کتنا ہی معتدل مزاج، معتدل اخلاق اور معتدل افعال کیوں نہ ہو، جیسے موسم کے ردو بدل سے پیدا شدہ امراض یا رات دن کی گردشوں سے سرزد شدہ احوال۔ ان میں نہ انسان کے ارادہ وفعل کو دخل ہے اور نہ ہی ان میں انسان کی تخصیص ہے۔ بلکہ ان تغیرات میں انسان و غیرانسان اور  پھر انسانوں میں بالغ ونابالغ، بچہ وبڑا، متقی اور فاجر سب برابر ہیں، یہ مصائب انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ درحقیقت یہ مصائب نہیں، بلکہ موسمی تغیرات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات میں نمایاں ہوتے ہیں اور یہ تغیرات اس عالم کی خاصیت ہے جو اس سے جدا نہیں ہوسکتی۔
(ب)  اختیاری مصائب:

جو انسان کے تصرفات اور کسب وعمل سے اُبھر کر اس کی ذات میں بھی نمایاں ہوتے ہیں اور آفاق میں بھی۔ اس کا سبب اس اعتدال کی خلاف ورزی ہے جو ہر انسان کی فطرت میں رکھاگیا ہے۔ خواہ وہ بے اعتدالیاں ان طبعی افعال میں نمایاں ہوں جن کا تقاضا انسان کی طبیعت کرتی ہے، جیسے: کھانا، پینا، سونا، جاگنا، جماع ومباشرت یا ان افعال میں نمایاں ہوں جن کا تقاضا عقل کرتی ہے، جیسے: مفادِ عامہ، اجتماعی، سیاسی اور قومی اُمور وغیرہ۔ غرض طبعی اور عقلی اُمور میں اس عدمِ اعتدال یعنی افراط وتفریط کے منفی آثار بصورتِ آفات انسان پر پڑتے ہیں، جو اسی کی بے اعتدالیوں کا ردِ عمل ہوتی ہیں۔

(ج) پاداشِ عمل میں آنے والے مصائب:

تیسری قسم کے مصائب وہ ہیں جو شرعی افعال کی خلاف ورزی کے نتیجے میں انسان پر آتے ہیں، یعنی کسی شرعی قانون کی اعلانیہ اور مسلسل خلاف ورزیوں پر اللہ تعالی کی طرف سے بطور پاداشِ عمل ڈالے جاتے ہیں۔ پس جب بھی اس قانونِ الٰہی کی مخالفت رونما ہو اور اُمورِ شرعیہ میں کھلے بندوں افراط وتفریط سے کام لیا جانے لگے، تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آفات وبلیات کا ظہور ہوگا، اگر احکاماتِ شرع کی خلاف ورزی اورنافرمانی انفرادی ہوگی تو عذابِ خداوندی بھی انفرادی طور پر تکوینی راستہ سے آئے گا اور اگر خلاف ورزی قومی اور اجتماعی رنگ کی ہوگی تو وبال ونکال بھی اجتماعی حیثیت سے سامنے آئے گا۔

احادیث مبارکہ میں انسانوں کی بداعمالیوں کے سبب حالات بگڑنے کا تذکرہ بہت تفصیل سے موجود ہے، ذیل میں احادیث کی روشنی میں بلائیں اُترنے اور زلزلے آنے کے اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:
1. خیانت : "إِذَا اتُّخِذَ الْفَیْئُ دِوَلًا" جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت سمجھا جانے لگے۔
2.    " وَالْأمَانَة مَغْنَمًا" امانت کو مالِ غنیمت سمجھا جانے لگے، یعنی: امانت کو ادا کرنے کی بجائے خود استعمال کر لیا جائے۔
3. عبادت میں حیلے بہانے:    "وَالزَّکَاۃُ مَغْرَمًا"  زکات کو تاوان سمجھا جانے لگے، یعنی: خوشی سے دینے کی بجائے ناگواری سے دی جائے۔
4.   "وَتُعُلِّمَ لِغَیْرِ الدِّینِ"علم‘ دین کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے لیے حاصل کیا جانے لگے۔
5. قطع رحمی وقطع تعلقی: " وَاَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأتَه"آدمی اپنی بیوی کی فرماں برداری کرنے لگے۔

 6."وَعَقَّ اُمَّه"اور اپنی ماں کی نافرمانی کرنے لگے۔

7."وَاَدْنٰی صَدِیْقَه"،دوست کو قریب کرنے لگے۔

  8."وَاَقْصٰی اَبَاہُ"اور باپ کو دور کرنے لگے۔
9. شعائر اللہ کی توہین:" وَظَهرَتِ الْاَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ" مسجدوں میں کھلم کھلا شور ہونے لگے۔
10. عہدوں اور مناصب میں بے دینی :  "وَسَادَ الْقَبِیْلَة فَاسِقُهم"قوم کی سرداری فاسق کرنے لگے۔
11. " وَکَانَ زَعِیمُ الْقَوْمِ اَرْذَلَهم" قوم کا سربراہ‘ قوم کا سب سے ذلیل آدمی بن جائے۔
12. "وَاُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَة شَرِّه" آدمی کا اکرام اس کے شر سے بچنے کے لیے کیا جانے لگے۔
13. بے حیائی، فحاشی وعریانی:   "وَظَهرَتِ الْقَیْنَاتُ وَالْمَـعَازِفُ"گانے والی عورتوں اور ساز وباجے کا رواج ہونے لگے۔
14.   "وَشُرِبَتِ الْخَمْرُ"شراب کھلے عام پی جانے لگے۔
15. عجب وعدمِ اعتماد :   " وَلَعَنَ آخِرُ هذِه الْأمَّة أوَّلَها" اُمت کے بعد والے لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔
"فَارْتَقِبُوا عِنْدَ ذٰلِك"(یعنی: جب یہ پندرہ کام ہونے لگ جائیں تو)اُس وقت انتظار کرو، "رِیحًا حَمْرَاءَ" سرخ آندھی کا، "وَزَلْزَلَة" زلزلے کا، "وَخَسْفًا" زمین میں دھنس جانے کا، "وَمَسْخًا" آدمیوں کی صورت بگڑ جانے کا، "وَقَذْفًا"اور آسمان سے پتھروں کے برسنے کا،"وَآیَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ قُطِعَ سِلْکُه فَتَتَابَعَ"، اور ایسے ہی مسلسل آفات اور بلاؤں کے آنے کا انتظار کرو جس طرح کسی ہار کا دھاگا ٹوٹ جائے اور اس کے موتی پے در پے جلدی جلدی گرنے لگیں۔

لہذا مسلمان ہونے کے ناطے اس بابت ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ دنیا میں پیش آنے والے حادثات و واقعات زلزلوں کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں یہ سب اللہ تعالی کی چاہت اور حکم سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، جس کا سبب حدیث کی رُو سے انسان کی اپنی انفرادی یا اجتماعی بداعمالیاں ہوتی ہیں، اس لیے ایسے وقت میں ان حوادث کو اسباب کی طرف منسوب کرکے اپنی جگہ مطمئن ہونے کی بجائے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیےاور اصلاحِ اعمال کی کوشش کرنی چاہیے۔

نیز بالفرض زلزلوں کے وقوع پذیر ہونے میں ’’ہارپ ٹیکنالوجی‘‘ کا عمل دخل ہونا اگر حقیقت بھی ہو تب بھی ایک مسلمان کااعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کو مصنوعی زلزلوں کے برپا کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی ہے تو وہ بھی اللہ تعالی کی چاہت اور حکم سے ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات بھی اللہ تعالی کی چاہت اور حکم سے ہیں،یعنی یہ ٹیکنالوجی مؤثر حقیقی نہیں ہے،  جیساکہ اللہ تعالی نے سورۂ بقرہ آیت نمبر :102  میں جادوگروں کے جادو کے ذریعے ضرر رسانی پر قدرت حاصل ہونے کے بارے میں صراحت کردی ہے کہ ’’ وہ لوگ اس کے ذریعے کسی کو بھی ضرر نہیں پہنچاسکتے مگر خدا کے حکم سے‘‘، یعنی مؤثر حقیقی اللہ تعالی کی ذات و قدرت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جو چاہت ہے وہ پوری ہوکر رہے گی اور جس امر سے اللہ تعالیٰ کی چاہت متعلق نہ ہو تو وہ کائنات کے سارے اسباب کی یکجائی اور اکٹھ کے باوجود بھی ظہور پذیر یا اثرانداز نہیں ہوسکتا۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:’’ اچھی طرح جان لو! اگر ساری اُمت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری اُمت تم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائے تب بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی نقصان پہنچاسکے گی ، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

ارشاد خداوندی ہے:

﴿قُل ‌لَّن ‌یُصِیبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَىٰنَا وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ﴾  (التوبۃ:51)

ترجمہ: ’’ تو کہہ دے ہم کو ہرگز نہ پہنچے گا مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لیے، وہی ہے کارساز ہمارا، اور اللہ ہی پر چاہیے کہ بھروسہ کریں مسلمان۔‘‘

﴿‌كُلُّ ‌نَفْسٍ ‌ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ﴾    (الانبیاء:35)

ترجمہ: ’’ ہر جی کو چکھنی ہے موت اور ہم تم کو جانچتے ہیں برائی سے اور بھلائی سے آزمانے کو اور ہماری طرف پھر کر آجاؤ گے ۔‘‘

﴿قُل لَّوْ كُنتُمْ ‌فِيْ ‌بُیُوتِكُمْ لَبَرَزَ ٱلَّذِینَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ إِلىٰ مَضَاجِعِهِمْ وَلِیَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِيْ صُدُورِكُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوبِكُمْ وَ اللَّهُ عَلِیمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ﴾  

 (آل عمران: 154)

ترجمہ: ’’ تو کہہ اگر تم ہو تے اپنے گھروں میں البتہ باہر نکلتے جن پر لکھ دیا تھا مارا جانا اپنے پڑاؤ پر اور اللہ کو آزمانا تھا جو کچھ تمہارے جی میں ہے اور صاف کرنا تھا اس کا جو تمہارے دل میں ہے اور اللہ جانتا ہے دلوں کے بھید ۔‘‘

تفسير البيضاوی میں ہے:

"وَما هُمْ بِضارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ لأنه وغيره من الأسباب غير مؤثرة بالذات، بل بأمره تعالى وجعله."

(سورة البقرة،الآية: 102، ج: 1، ص: 98، ط: دار إحياء التراث العربي)

التفسير المظهری میں ہے:

"(وَما هُمْ) أي السحرة أو الشياطين (بِضارِّينَ به) أي بالسحر (مِنْ أَحَدٍ) أي أحد(إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ) يعني بقضائه وقدره ومشيته، فإن الأسباب كلها أسباب ظاهرية عادية غير مؤثرة بالذات - بل جرت عادة الله سبحانه بخلق التأثيرات والتأثرات بعد وجود الأسباب إن شاء."

(سورة البقرة ، الآية: 102، ج:1، ص:107،ط: رشيدية)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: «يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على ‌أن ‌ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف» هذا حديث حسن صحيح ."

(أبواب صفة القيامة والرقائق والورع، 4/ 248، رقم الحديث:2516، ط: دارالغرب الإسلامي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں