فقہ حنفی کے مطابق دم بریدہ جانور کی قربانی حد شرعی سے کم ہوتو اس کے قربانی کے درست نہ ہونے میں کوئی کلام نہیں، لیکن امریکہ میں حکومت کی ہدایات کی وجہ سے قانوناً اس کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے، اس لئے بوجہ قانونی مجبوری اس کی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟ بعض دفعہ ادویہ وغیرہ کے ذریعہ ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ہےکہ دم بالکل ہی پیدا نہیں ہوتی تو کیا ایسے جانور کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟
واضح رہے کہ قربانی سے مقصود گوشت نہیں ہے، بلکہ اصل مقصود جانورکو اللہ کے نام پر قربان کرنا ہے، اسی لیے شریعت نے اس کے لیے کچھ خاص شرائط ٹھہرائی ہیں اور ان شرائط کی رعایت بھی ضروری ہے۔لیکن جس کسی ملک یا خطہ میں ان خاص شرائط کی رعایت کرنے اور اس پر عمل کرنے میں قانونی رکاوٹ پیش آرہی ہو اور اس کےحل کے لیے کوئی راستہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں اس ملک اور خطہ کے مسلمانوں کے لیے خاص شرائط کے مفقود ہونے کے باوجود میسر جانور کی قربانی کرنے کی گنجائش ہے۔
لہذااگر واقعتاّ امریکہ میں جانوروں کا دم کاٹنا قانوناً ضر وری ہو اور ہر خاص و عام پر اس پر عمل کرنا ضرور ی ہو اور اس ملک میں دم والے جانور دستیاب ہی نہیں ہوتے ، تو ایسی صورتِ حال میں مجبوراً قربانی کرنے والے مسلمانوں کے لیے نصف سے کم دم بریدہ جانوروں کی قربانی کرنے کی گنجائش ہوگی اور اگر امریکہ میں بالکل دم والا جانور نہ ملے تو کسی دوسرے ملک میں اپنی قربانی کروالیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا (ذبح حيوان مخصوص بنية القربة في وقت مخصوص. وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)."
(كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 312، ط: سعيد)
ہدایہ شرح البدایہ میں ہے:
"قال: "ولا تجزئ مقطوعة الأذن والذنب". أما الأذن فلقوله عليه الصلاة والسلام: "استشرفوا العين والأذن" أي اطلبوا سلامتهما. وأما الذنب فلأنه عضو كامل مقصود فصار كالأذن."
(کتاب الأضحیة، ج: 4، ص: 385، ط: دار إحياء التراث العربي)
شرح عقود رسم المفتی میں ہے:
"(ثم اعلم) أن العرف قسمان عام وخاص فالعام يثبت به الحكم العام ويصلح مخصصا للقياس والأثر بخلاف الخاص."
(أقسام العرف و احكامها، ص: 81، ط: مكتبة البشرى)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
ایک قول کے مطابق دم نصف سے کم کٹی ہو۔ یعنی آدھے سے زیادہ باقی رہی ہو۔ اس کی قربانی درست ہے۔ لہذا جہاں کامل دم والے یا ثلث حصہ سے کم دم بریدہ جانور نہ ملیں وہاں اس قول کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔
(کتاب الأضحیہ، ج: 10، ص: 50، ط: دار الإشاعت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602100550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن