بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں دلہن کے ولی کے علاوہ کو وکیل بنانے کا حکم


سوال

نکاح نامے کی شق نمبر 8 (دلہن کے وکیل کے تقرر کے گواہوں کے نام، ولدیت اور سکونت)کی راہ نمائی کر دیجیے گا،  کہ اس کی  شرعی حیثیت کیا ہے؟

ہمارے علاقے (مظفرآباد، آزاد کشمیر) میں اس کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے کہ تقریب نکاح میں دو افراد کو گواہ بنا کر دلہن کے پاس شادی کی اجازت کے لیے بھیجا جاتا ہے،  وہ دو آدمی دلہن کے پاس جا کر مخصوص الفاظ میں اجازت طلب کرتے ہیں، تو وہ کہتی ہے کہ میں نے فلاں شخص کو اپنا ولی مقرر کیا اور اسے اپنے نفس کا اختیار دیا ،  کیا ولی کی تقریبِ  نکاح میں موجودگی کے باوجود اس طرح کرنا درست ہے ؟ اس میں عمومی طور پر دو مفاسد پائے جاتے ہیں: ایک تو یہ کہ جن افراد کو گواہ بنا کر اجازت کے لیے بھیجا جاتا ہے،  وہ بعض اوقات غیر محرم ہوتے ہیں،  اور مزید یہ کہ اجازت طلب کرتے وقت دلہن کے پاس اس کی تمام رشتے دار خواتین بھی موجود ہوتی ہیں، جو پردے کا خیال نہیں کرتیں، اور ہنسی مذاق کرتی ہیں ۔

دوسری خرابی یہ کہ بعض اوقات دلہن، والد اور چچا کے ہوتے ہوئے کسی اجنبی شخص کو ولی بنا دیتی ہے، ان الفاظ کے ساتھ کہ میں نے فلاں شخص کو اپنے نفس کا اختیار دیا ۔

جواب

دولہن کی طرف سے نکاح کے وکیل کا محرم یا ولی  ہونا شرعًا ضروری نہیں، لہذااگر وہ اپنے محارم یا ولی  کے علاوہ کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کردے، اور وہ عقد نکاح کی مجلس میں گواہوں کے سامنے دولہن کی طرف سے  ایجاب یا قبول کرے تو  نکاح شرعًا درست ہوجائے گا، تاہم بہتر یہ ہے کہ وکیل  اور اس کے گواہ لڑکی کے محرم ہوں تاکہ پردے کا مسئلہ نہ ہو، بہر صورت وہاں موجود خواتین کے لیے غیر محرم مردوں کے سامنے بے پردہ آنا درست نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة رضي الله عنها فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة."

(كتاب النكاح، فصل ركن النكاح، ج: 2، ص: 231، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاً: 

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(كتاب النكاح، فصل ولاية الندب والاستحباب في النكاح، ج: 2، ص: 247، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يصح التوكيل بالنكاح."

(كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، ج: 1، ص: 294، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں