بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دلہا کا بارات جانے سے پہلے مسجد میں جاکر دو رکعت نفل ادا کرنا


سوال

ہمارے ہاں یہ رسم رائج ہے کہ دولہا شادی والے دن بارات کی روانگی سے قبل مسجد میں نفل نماز پڑھنے جاتا ہے ، ساتھ   باراتی کیمرہ مین اور بینڈ باجے والے بھی  ساتھ جاتے  ہیں،اس نفل نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  کیا یہ نفل نماز گھر میں پڑھی جاسکتی ہے  یا اس کے لیے  کوئی خاص وقت مخصوص ہوتا ہے؟

جواب

شبِ  زفاف میں میاں بیوی کا ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھنا مستحب  ہے اور  یہ نماز نفل ہے، اور اس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، اور یہ خیر و برکت اور میاں بیوی میں باہم الفت  و محبت کا ذریعہ ہے۔

لیکن بارات لے جانے سے پہلے  دلہے کا مسجد میں جاکر دو رکعت نفل پڑھنا  شرعًا ثابت نہیں ہے، اس لیے اس کا التزام کرنا بدعت ہے، بالخصوص اگر اس میں باراتی کیمرہ مین اور بینڈ باجے  والے بھی مسجد میں  جائیں تو یہ مسجد کی بے حرمتی ہے اور کیمرہ اور بینڈ باجوں کا مستقل گناہ بھی  ہے، اور ریاکاری، اور نمود نمائش بھی ہے۔ اس لیے  اس صورت میں یہ ناجائز اور حرام ہوگا۔

بارات سے پہلے اگر دلہا صلاۃ الحاجات یا شکرانے کی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو گھر میں یا مسجد جاکر تنہا پڑھ لے، نہ اس کو لازم اور ضروری سمجھے ، نہ اس میں تکلفات اور خرافات کرے۔

باقی شب زفاف میں نفل نماز کی تفصیل کی درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

رخصتی کی شب میاں بیوی کا باجماعت نماز پڑھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں