بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دخول سے پہلے تین طلاق تین الگ جملوں دینے کا حکم


سوال

 میں نے 2006-03-24 کو کورٹ میرج کی تھی مگر 2006-08-26 کو کچھ نا معلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اور مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر مجھ سے طلاق نامے پر دستخط کروائے، جو وہ لوگ پہلے سے تیار کر کے لائے تھے، اور مجھ سے زبانی بھی تین مرتبہ طلاق دلوائی (الگ تین جملوں میں ادا کیا)،اس وقت تک ہمارے درمیان مکمل ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے، اس کے بعد میں نے عدالت سے رجوع کیا، اور عدالت نے لڑکی کے گھر والوں کو تین مہینے کا پابند کیا کہ نہ تو لڑکی کے ساتھ کوئی زبردستی کریں گے، اور نہ ہی اگر لڑکی میرے ساتھ جانا چاہے گی تو روکیں گے، اس کے ساتھ ہی میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن سے فتویٰ بھی لیا (کاپی منسلک ہے) ،جس میں مفتی صاحب نے کہا کہ اگر ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے ،اور زبان سے بھی طلاق دی ہے تو ایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے، ان تمام واقعات کے بعد 2006-10-04 سے  لڑکی میرے ساتھ زندگی گزار رہی ہے ،جبکہ ہم نے دوبارہ کسی بھی وقت نہ تو نکاح کیا، اور نہ ہی میں نے اس عرصے میں دوبارہ طلاق دی، ہمارے چار بچے ہیں، جن میں تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے شرعی جوابات کے لئے آپ سے رہنمائی درکار ہے:
  1.  ایک طلاق بائن کی صورت میں نکاح قائم رہتا ہے یا فوراًختم ہو جاتا ہے؟
  2.  اگر طلاق فوراً واقع ہو جاتی ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
  3. اگر لڑکا اور لڑکی دوبارہ ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو شرعی اعتبار سے کیا طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟
  4.  اگر دوبارہ نکاح کرنا مقصود ہو تو کیا لڑکی کو حلالہ کرنا ہوگا؟
  5.  لڑکی مسلک اہلسنت (بریلوی) کی پیروکار ہے،اور اس کو  بریلوی  علماء نے کہا ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، جبکہ میں مسلک دیوبند کا پیروکار ہوں ۔
 

جواب

مذکورہ بالا  تمام سولات کے جوابات ذیل میں ذکر کئے جاتے ہے: 

  واضح رہے کہ عورت کو نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات ) سے پہلےاس کا شوہر تین طلاقیں الگ الگ جملوں سے دے دے،تو  اس صورت   میں  صرف  ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی  ہے،اور باقی دو طلاقیں لغو ہو جاتی ہے، اس کے بعد  عورت پر عدت گزارنا لازم نہیں ہوتا، لہذا طلاق کے بعد وہی شخص دوبارہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو از سر نو  نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرسکتا ہےاور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ اگر اکراہ کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کےالفاظ الگ الگ کہے تھےتو اس کی وجہ سے  ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی تھی، اور  بیوی شوہر کے  نکاح سے نکل گئی تھی،اور اگر دوبارہ دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نکاح نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں ضروری ہے، لہذاسائل مذکورہ عورت  سے   2006 کے بعد اب تک جو وقت ایک ساتھ گزارا اور جو  ازدواجی تعلق بغیر نکاح قائم رکھا ہے یہ سب ناجائز تھا، لہذا اس پر توبہ و استغفار کریں،اور جلد از جلد  نکاح نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں کریں۔ میاں بیوی کا تعلق حلال ہونے کے لیے دوسری جگہ نکاح کرکے طلاق لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإِن فرق) بوصف أوخبرأوجمل بعطف أو غيره (بانت بالاولى) لا إلى عدة(و) لذا (لم تقع الثانية)."

(باب طلاق غیر المدخول بھا  ج:3 ص:286  ط:سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144410100250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں