بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکانوں سے چیزیں کھانے کا حکم


سوال

 ایک شخص   فروٹ کی ریڑھی  پر جاتا ہے ،وہاں سے چیزیں خرید تھے وقت بغیر اجازت کے وہاں سے ایک دو فروٹ لے کر  کھا لیتاہے،اور اگر ساتھ میں بچےہوتو بچے کو بھی ایک دو پیار سے دے دیتا ہے،جس طرح  لوگ عام طور پر  کرتے ہیں،  اسی طرح فروٹ کے دکانوں کے علاوہ دوسرے دکانوں میں بھی یہ کام ہوتا ہے،  اور یہ سب کچھ پیچنے یعنی فروخت کرنے والا بھی دیکھ رہا ہوتا ہے،  مگر وہ فروخت کرنے والا بھی کچھ نہیں کہتا ہے،  شاید  کوئی نہ کوئی مجبوری ہو،  کیا اس طرح بغیر اجازت کےچیزیں  اٹھا کر کھانا حلال ہے یا حرام ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیچنے والے کی طرف سے صراحتاً یا دلالتاً اجازت ہو تو اس طرح کھانا حلال ہے، اور اگر مالک کی طرف سے اجازت نہ ہو یا معلوم ہو کہ مالک مجبوراً کچھ نہیں کہتا ہے، لیکن دلی خوشی اور رضامندی سے کھانے کی اجازت نہیں دیتا  تو اس طرح کھانا ناجائز ہے،بہتر یہی ہے کہ فروخت کرنے والے سے صراحۃ اجازت لے لی جائے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے ۔

سنن  بیہقی میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌كل ‌أحد أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين»"

(كتاب النفقات،باب نفقة الوالدين، ج:3، ص:192ِ، ط: دراسات الاسلامية)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «‌ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

[باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر.]

البحرالرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط:دار الكتاب الإسلامي)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالة أو ولاية و إن فعل كا ضامنًا."

(ج:1، ص:61، رقم المادۃ:96،ط :حبیبیہ کوئٹہ)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة ٩٦) : لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (المادة ٩٧) : لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".

(المقالة الثانية فی بیان القواعد الکلیة الفقهية، ص:27، ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں