بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکانوں کے باہر سڑک پر سامان لگانے کا حکم


سوال

ہماری بازار میں برتنوں کی دوکان ہے، دیگر دوکانداروں کی طرح ہم بھی دوکان سے باہر فٹ پاتھ پر  اور سڑک پر  سامان لگالیتے ہیں جس سے تقریباً 5 سے 6 فٹ کا ایریا کور  ہو جاتا ہے،  اب پوچھنا یہ ہے  کہ کیا  اس طرح کرنا جائز ہے؟ اگر ایسا کرنا درست نہیں تو اب تک ہم جو کرتے آئے ہیں اس کی تلافی کیسے ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ دوکان کے باہر والا حصہ (فٹ پاتھ یا سڑک) جو دوکان کے مالک کی ملکیت نہیں ہے اس پر سامان لگانے سے  لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے، اور آمد رفت میں خلل واقع ہوتا ہے؛  لہذا دوکان کی حدود سے باہر  اس طور پر سامان لگانا جائز نہیں ہے، اور آج تک جو ہوا اس پر سچے دل توبہ واستغفار کریں۔

المحيط البرهانی میں ہے: 

"وسئل أبو القاسم عمن يبيع ويشتري في الطريق قال: إن كان الطريق واسعاً ولا يكون في قعوده ضرر للناس فلا بأس، وعن أبي عبد الله القلانسي أنه كان لا يرى بالشراء منه بأساً وإن كان بالناس ضرر في قعوده، والصحيح هو الأول؛ لأنه إذا علم أنه لا يشتري منه لا يبيع على الطريق فكان هذا إعانة له على المعصية وقد قال الله تعالى: {ولا تعاونوا على الاثم والعدوان}  وبعض مشايخنا قالوا: لاتجوز له العقود على الطريق وإن لم يكن للناس في قعوده ضرر ويصير بالقعود على الطريق فاسقاً؛ لأن الطريق ما اتخذ للجلوس فيه إنما اتخذ للمرور فيه".

(الفصل الخامس والعشرون: في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة وما جاء فيها من الرخصة، ج:7، ص: 140، ط: دار الكتب العلمية)

منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک میں ہے:

"(ويباح ‌الجلوس ‌في ‌الطريق للبيع إذا كان واسعاً، لا يتضرر الناس به) أي بجلوسه (ولو كان الطريق ضيقاً: لا يجوز) لأن المسلمين يتضررون بذلك. وقال عليه السلام: "لا ضرر ولا ضرار في الإسلام"."

(‌‌كتاب الكراهية، ‌‌فروع، ج:1، ص:428، ط: دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں